علی معاھد
محفلین
رہتے ہیں جگ میں بندہ مجہول کی طرح
کرتے ہیں راج دشت میں ہم دھول کی طرح
ہر قلب آبگینہ نازک ہے ، ہاں مگر
اتریں گے ہم بھی جام میں محلول کی طرح
بنجر ہوئی زمین ادب پر وہ چند ایک
صحرائوں میں جو نکلیں کسی پھول کی طرح
دانستہ ہم بھی شعر و سخن میں الجھ گئے
معمول سے ھٹے بھی ہیں معمول کی طرح
نکلے ارم سے بابا تو نکلے ہیں گھر سے ہم
ورثے میں ہے یہ بھول بھی اس بھول کی طرح
منصوریت کا شوق تو ہے، حوصلہ نہیں
ڈر ہے نہ بیتے عاشق مقتول کی طرح
اب مدتوں بھی آتا نہیں ہے خیال نو
ہوتے ہیں شعر سال کے محصول کی طرح
کرتے ہیں راج دشت میں ہم دھول کی طرح
ہر قلب آبگینہ نازک ہے ، ہاں مگر
اتریں گے ہم بھی جام میں محلول کی طرح
بنجر ہوئی زمین ادب پر وہ چند ایک
صحرائوں میں جو نکلیں کسی پھول کی طرح
دانستہ ہم بھی شعر و سخن میں الجھ گئے
معمول سے ھٹے بھی ہیں معمول کی طرح
نکلے ارم سے بابا تو نکلے ہیں گھر سے ہم
ورثے میں ہے یہ بھول بھی اس بھول کی طرح
منصوریت کا شوق تو ہے، حوصلہ نہیں
ڈر ہے نہ بیتے عاشق مقتول کی طرح
اب مدتوں بھی آتا نہیں ہے خیال نو
ہوتے ہیں شعر سال کے محصول کی طرح
آخری تدوین: