رہ وفا
محفلین
السلام علیکم دوستو
ایک نئی غزل کے ساتھ حاضر ہوں امید ہے پسند آئے گی
ایک نئی غزل کے ساتھ حاضر ہوں امید ہے پسند آئے گی
حدِ جاں سے گزرنا چاہتی ہیں
امنگیں رقص کرنا چاہتی ہیں
امنگیں رقص کرنا چاہتی ہیں
تری دہلیز کی چوکھٹ پہ آنکھیں
دیے کی طرح جلنا چاہتی ہیں
تری یادوں کے صحرا میں یہ آنکھیں
گھٹائوں سی برسنا چاہتی ہیں
دیے کی طرح جلنا چاہتی ہیں
تری یادوں کے صحرا میں یہ آنکھیں
گھٹائوں سی برسنا چاہتی ہیں
اٹھائو آفتابِ رخ سے پردہ
مری صبحیں اترنا چاہتی ہیں
مری صبحیں اترنا چاہتی ہیں
کبھی گزرو مرے دل کی گلی سے
کہ یہ راہیں سنورنا چاہتی ہیں
جو گزرے ہیں تری یادوں میں لمحے
وہیں سانسیں ٹھہرنا چاہتی ہیں
چرا کر رنگ تیرے خال و خد سے
فضائیں خود نکھرنا چاہتی ہیں
کہ یہ راہیں سنورنا چاہتی ہیں
جو گزرے ہیں تری یادوں میں لمحے
وہیں سانسیں ٹھہرنا چاہتی ہیں
چرا کر رنگ تیرے خال و خد سے
فضائیں خود نکھرنا چاہتی ہیں
مری تنہائیاں بھی سر پھری ہیں
جدائی سے مکرنا چاہتی ہیں
جدائی سے مکرنا چاہتی ہیں
چلو سجاد اس کو ڈھونڈتے ہیں
کہ امیدیں بکھرنا چاہتی ہیں
کہ امیدیں بکھرنا چاہتی ہیں
آخری تدوین: