فاتح
لائبریرین
اٹھتی گھٹا ہے کس طرح؟ بولے وہ زلف اٹھا کہ یوں
برق چمکتی کیوں کہ ہے؟ ہنس کے یہ پھر کہا کہ یوں
چوری سے اس کے پاؤں تک پہنچی تھی شب کو کس طرح
آ کہیں ہاتھ مت بندھا، کہہ دے اب اے حنا کہ یوں
دن کو فلک پہ کہکشاں نکلے ہے کیوں کہ غیرِ شب؟
چینِ جبیں دکھا مجھے اس نے دیا بتا کہ یوں
جیسے کہا کہ عاشقاں رہتے ہیں کیوں کہ چاک جیب؟
اس کو گلِ چمن دکھا، کہہ کے چلی صبا کہ یوں
ہو گئے بر سرِ خلش لے کے سناں جو خارِ دشت
کرنے کلام تب لگا قیسِ برہنہ پا کہ یوں
پوچھے ہے وہ کہ کس طرح شیشہ و جام کا ہے ساتھ؟
کہہ دے ملا کے چشم سے چشم کو ساقیا کہ یوں
کرتے سفر ہیں کس طرح بحرِ جہاں سے اے حباب؟
خیمے کو اپنے لاد کر کر دے یہ عقدہ وا کہ یوں
شاہ نصیر
برق چمکتی کیوں کہ ہے؟ ہنس کے یہ پھر کہا کہ یوں
چوری سے اس کے پاؤں تک پہنچی تھی شب کو کس طرح
آ کہیں ہاتھ مت بندھا، کہہ دے اب اے حنا کہ یوں
دن کو فلک پہ کہکشاں نکلے ہے کیوں کہ غیرِ شب؟
چینِ جبیں دکھا مجھے اس نے دیا بتا کہ یوں
جیسے کہا کہ عاشقاں رہتے ہیں کیوں کہ چاک جیب؟
اس کو گلِ چمن دکھا، کہہ کے چلی صبا کہ یوں
ہو گئے بر سرِ خلش لے کے سناں جو خارِ دشت
کرنے کلام تب لگا قیسِ برہنہ پا کہ یوں
پوچھے ہے وہ کہ کس طرح شیشہ و جام کا ہے ساتھ؟
کہہ دے ملا کے چشم سے چشم کو ساقیا کہ یوں
کرتے سفر ہیں کس طرح بحرِ جہاں سے اے حباب؟
خیمے کو اپنے لاد کر کر دے یہ عقدہ وا کہ یوں
شاہ نصیر