اپنا بھی اس جہاں میں کوئی تو یار ہوتا----برائے اصلاح

الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع :راحل:
---------
اپنا بھی اس جہاں میں کوئی تو یار ہوتا
ہم کو بھی پیار ملتا ہم کو بھی پیار ہوتا
-------------
میری طرح جو اس کے بھی دل میں پیار ہوتا
اس کو مری وفا پر تب اعتبار ہوتا
------------
دیتے جوابِ چاہت فرصت نہیں تھی اتنی
ایسا کبھی نہ کرتے جو بار بار ہوتا
------------
الفت کے راستے کو ہم خود ہی چھوڑ بھاگے
ورنہ کسی کو اپنا بھی انتظار ہوتا
--------------
خود کو اداس کرنے کا حوصلہ نہیں تھا
کوئی جو دل میں بستا ، دل بے قرار ہوتا
----------------
نیکی کا کام کوئی کرتے اگر جہاں میں
نیکوں میں پھر ہمارا شائد شمار ہوتا
-----------
آنسو جو بہہ رہے تھے روکا تھا خود ہی ان کو
ورنہ نیا جہاں میں اک آبشار ہوتا
----------
نظریں جھکا کے اپنی خود کو نہ گر بچاتے
تیرِ نظر وگرنہ دل کے ہی پار ہوتا
-------------
کوئی ملا نہ ہم کو اپنا جسے سمجھتے
کرتے وفا کے وعدے گر اعتبار ہوتا
-------
کرتے اگر سیاست ہم بھی امیر ہوتے
دنیا میں مال اپنا بھی بے شمار ہوتا
---------یا
بچتے اگر گنہ سے انگلی نہ ہم پہ اٹھتی
کردار پھر ہمارا کیوں داغدار ہوتا
-------
قسمت میں جو لکھا ہو ملتا وہی ہے ارشد
اپنے وطن میں رہ کر بھی مالدار ہوتا
-------------
 

الف عین

لائبریرین
پہلے اپنی صحت کی بابت تو خبریں سناتے! فکر تو اس کی ہے۔ شاعری تو ہوتی رہے گی!
اپنا بھی اس جہاں میں کوئی تو یار ہوتا
ہم کو بھی پیار ملتا ہم کو بھی پیار ہوتا
------------- یار اور پیار میں ایطا کا سقم ہے

میری طرح جو اس کے بھی دل میں پیار ہوتا
اس کو مری وفا پر تب اعتبار ہوتا
------------ 'بھی' دوسرے نصف میں جا پڑا ہے جس سے روانی متاثر ہوتی ہے
جو اس کے دل میں میری مانند پیار ہوتا
یا اس قسم کا کوئی مصرع

دیتے جوابِ چاہت فرصت نہیں تھی اتنی
ایسا کبھی نہ کرتے جو بار بار ہوتا
------------ چاہت ہندی لفظ ہے، اضافت ممکن نہیں

الفت کے راستے کو ہم خود ہی چھوڑ بھاگے
ورنہ کسی کو اپنا بھی انتظار ہوتا
-------------- مزاحیہ شعر لگ رہا ہے

خود کو اداس کرنے کا حوصلہ نہیں تھا
کوئی جو دل میں بستا ، دل بے قرار ہوتا
---------------- یہ بحر منقسم ہے دو نصفوں میں، ہر نصف میں بات مکمل ہو تب ہی روانی درست رہتی ہے، 'کرنے کا' ٹوٹ رہا ہے، شعر واضح بھی نہیں

نیکی کا کام کوئی کرتے اگر جہاں میں
نیکوں میں پھر ہمارا شائد شمار ہوتا
----------- ٹھیک، مگر کوئی خاص بات؟

آنسو جو بہہ رہے تھے روکا تھا خود ہی ان کو
ورنہ نیا جہاں میں اک آبشار ہوتا
---------- ہوتا نہیں، بن جاتا کا محل ہے

نظریں جھکا کے اپنی خود کو نہ گر بچاتے
تیرِ نظر وگرنہ دل کے ہی پار ہوتا
------------- کس کا تیر نظر؟ واضح کرو

کوئی ملا نہ ہم کو اپنا جسے سمجھتے
کرتے وفا کے وعدے گر اعتبار ہوتا
------- کس پر اعتبار؟

کرتے اگر سیاست ہم بھی امیر ہوتے
دنیا میں مال اپنا بھی بے شمار ہوتا
---------یا
بچتے اگر گنہ سے انگلی نہ ہم پہ اٹھتی
کردار پھر ہمارا کیوں داغدار ہوتا
------- دونوں اشعار تو الگ الگ موضوع کے ہیں، متبادل کا کیا سوال؟ پہلا خواہ مخواہ کا اضافہ لگ رہا ہے، دوسرا ٹھیک ہے

قسمت میں جو لکھا ہو ملتا وہی ہے ارشد
اپنے وطن میں رہ کر بھی مالدار ہوتا
--------- کون مالدار ہوتا؟ ارشد؟ اس صورت میں ارشد بھی دوسرے مصرعے میں لایا جائے
مختصر یہ کہ مجھے یہ لگتا ہے کہ یہ بھی کورونا عہد سے پہلے کی آپ کی کوئی غزل ہے! وہی غلطیاں!
 
Top