نمرہ
محفلین
میر کی زمین میں۔
اپنا بھی تو مسلک تھا وہی کم نظری کا
کیا یار سے رکھتے ہیں گلہ بے خبری کا
اک عمر تعلق ہی نبھانے میں گزاری
آیا نہ ہمیں فن یہ کبھی شیشہ گری کا
دیکھی ہیں بہت ہم نے مسافت کی مثالیں
عالم ہے جدا دل کی مگر دربدری کا
اس در پہ رہی سر تو پٹکنے کی اجازت
تھا کچھ تو ہمیں فائدہ آشفتہ سری کا
کب ایک جگہ ٹک کے بھلا کی ہے ریاضت
کب کوئی ٹھکانہ تھا مری بے ہنری کا
ہاں ہم نے محبت میں بجز اس کے کیا کیا
ہلکا سا تقاضا رہا بیداد گری کا
گاہے تھی ستارا تو گہے دل یہ مری خاک
یزداں کا تماشا تھا فقط کوزہ گری کا
منزل نہ ملی اپنی کسی سے بھی وگرنہ
اتنا سا تقاضا تھا مری ہمسفری کا
اپنا بھی تو مسلک تھا وہی کم نظری کا
کیا یار سے رکھتے ہیں گلہ بے خبری کا
اک عمر تعلق ہی نبھانے میں گزاری
آیا نہ ہمیں فن یہ کبھی شیشہ گری کا
دیکھی ہیں بہت ہم نے مسافت کی مثالیں
عالم ہے جدا دل کی مگر دربدری کا
اس در پہ رہی سر تو پٹکنے کی اجازت
تھا کچھ تو ہمیں فائدہ آشفتہ سری کا
کب ایک جگہ ٹک کے بھلا کی ہے ریاضت
کب کوئی ٹھکانہ تھا مری بے ہنری کا
ہاں ہم نے محبت میں بجز اس کے کیا کیا
ہلکا سا تقاضا رہا بیداد گری کا
گاہے تھی ستارا تو گہے دل یہ مری خاک
یزداں کا تماشا تھا فقط کوزہ گری کا
منزل نہ ملی اپنی کسی سے بھی وگرنہ
اتنا سا تقاضا تھا مری ہمسفری کا
آخری تدوین: