کاشفی
محفلین
غزل
(عادل رشید - نئی دہلی، ہندوستان)
اپنا شعور اپنی انا کھو چکے ہیں ہم
اب جاگنا پڑیگا بہت سو چکے ہیں ہم
اب کون بڑھ کے ہم کو گلے سے لگائے گا
کانٹے تو اپنے چارو طرف بو چکے ہیں ہم
احساسِ کمتری کا ہوئے ہیں شکار یوں
اب احتجاج تک کا ہنر کھو چکے ہیں ہم
اب راہ تک رہے ہیں ابابیلیں آئیں گی
حاصل جو تھا دعا میں اثر کھو چکے ہیں ہم
کب تک نصیب ساتھ ہمارا نبھائے گا
اب اتنی بار پا کے تجھے کھو چکے ہیں ہم
مرنے کے بعد دیں، تو ترا ہی حصاب دیں
تا عمر زندگی تو تجھے ڈھو چکے ہیں ہم
شکوا اگر کریں تو کریں کس زُبان سے
اک حق تھا اپنے پاس جسے کھو چکے ہیں ہم
اب تو ہمارے ہونٹوں کو مسکان بخش دے
اب تو نصیب سے بھی سوا رو چکے ہیں ہم
(عادل رشید - نئی دہلی، ہندوستان)
اپنا شعور اپنی انا کھو چکے ہیں ہم
اب جاگنا پڑیگا بہت سو چکے ہیں ہم
اب کون بڑھ کے ہم کو گلے سے لگائے گا
کانٹے تو اپنے چارو طرف بو چکے ہیں ہم
احساسِ کمتری کا ہوئے ہیں شکار یوں
اب احتجاج تک کا ہنر کھو چکے ہیں ہم
اب راہ تک رہے ہیں ابابیلیں آئیں گی
حاصل جو تھا دعا میں اثر کھو چکے ہیں ہم
کب تک نصیب ساتھ ہمارا نبھائے گا
اب اتنی بار پا کے تجھے کھو چکے ہیں ہم
مرنے کے بعد دیں، تو ترا ہی حصاب دیں
تا عمر زندگی تو تجھے ڈھو چکے ہیں ہم
شکوا اگر کریں تو کریں کس زُبان سے
اک حق تھا اپنے پاس جسے کھو چکے ہیں ہم
اب تو ہمارے ہونٹوں کو مسکان بخش دے
اب تو نصیب سے بھی سوا رو چکے ہیں ہم