ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
ایک اور پرانی غزل کے کچھ اشعار پیشِ خدمت ہیں ۔ آپ احباب کی بصارتوں کی نذر!
اپنوں نے بھی منّت کی ، غیروں نے بھی سمجھایا
کرنا تھا جو اِس دل نے کیا ، باز نہیں آیا
نالہ كبهی کھینچا ہے ، تو گیت كبهی گایا
نازِ شبِ ہجراں تو كسی طور نہ اُٹھ پایا
دیکھا تھا کبھی جس کی گلیوں میں اُسے دل نے
چلتے ہی رہے ہم تو وہ شہر نہیں آیا
آوارگی میری ہے رستے کے مقدر میں
اور میرے مقدر میں ہر منزلِ بے سایا
غزلوں میں فسانوں میں کس شخص کی باتیں ہیں؟
ہم نے تو بہت ڈھونڈا ، دیکھا نہ کہیں پایا
جب یاد کوئی آئی ، ہم روئے اکیلے میں
جب روئے اکیلے میں ، تو یاد کوئی آیا
***
اپنوں نے بھی منّت کی ، غیروں نے بھی سمجھایا
کرنا تھا جو اِس دل نے کیا ، باز نہیں آیا
نالہ كبهی کھینچا ہے ، تو گیت كبهی گایا
نازِ شبِ ہجراں تو كسی طور نہ اُٹھ پایا
دیکھا تھا کبھی جس کی گلیوں میں اُسے دل نے
چلتے ہی رہے ہم تو وہ شہر نہیں آیا
آوارگی میری ہے رستے کے مقدر میں
اور میرے مقدر میں ہر منزلِ بے سایا
غزلوں میں فسانوں میں کس شخص کی باتیں ہیں؟
ہم نے تو بہت ڈھونڈا ، دیکھا نہ کہیں پایا
جب یاد کوئی آئی ، ہم روئے اکیلے میں
جب روئے اکیلے میں ، تو یاد کوئی آیا
***
ظہیرؔ احمد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مئی 2012