اپنی اپنی جنت

گرد سے پاک نیلے آسمان، صاف و شفاف ٹھنڈے پانی کے چشموں، رنگ برنگے پھولوں اور ہر طرف پھیلے قدرتی سبزے سے سجی یہ ایک خوبصورت پہاڑی وادی تھی۔ ہم شہر میں رہنے والے لوگوں کے لیے یہ دور دراز حسین وادی جنت کے ٹکڑے سے کم نہیں تھی۔ میرے جیسے بہت سے لوگ بڑے شہروں کی ہر قسم کی آلودگیوں سے جان چھڑا کر اپنی زندگی کے چند روز سکون سے گذارنے کے لیے اس وادی میں آتے تھے۔

میں ان دنوں ایک غیر سرکاری ادارے میں ملازم تھا۔ اچھی خاصی تنخواہ تھی۔ دس دن کی چھٹیاں گذارنے یہاں آیا ہوا تھا۔رہائش ایک ہوٹل میں تھی۔ یہ ایک صاف ستھرا ہوٹل تھا جس میں رہائش کی کافی بہترسہولتیں مہیا کی گئی تھیں۔ کرایہ مجھے کچھ زیادہ لگا تھا۔اس میں رعایت کی غرض سے میں ہوٹل کے مالک سے ملا تو پتہ چلا کہ وہ بھی میرے ہی شہر کا رہنے والا تھا۔ یہاں وہ ہوٹل کا کاروبار چلاتا تھا۔ گرمیوں میں جب سیزن عروج پر ہوتا تھا تو وہ یہاں قیام کرتا تھا اور سردیوں میں ہوٹل ملازموں کے حوالے کرکے شہر واپس چلا جاتا تھا۔ وہ مجھ سے بہت اچھے انداز سے پیش آیا اور کرایہ بھی کم کردیا۔

وادی چونکہ بڑے شہروں سے کافی دور تھی اس لیے زندگی کی سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں۔ صحت کی سہولتوں کے لیے ایک چھوٹی سی ڈسپنسری تھی جہاں بالکل بنیادی سہولتوں کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ بیماری میں لوگ زیادہ تر ٹوٹکوں سے ہی کام چلاتے تھے۔ تعلیم کی سہولتوں کے لیے ایک مڈل سکول تھا۔ جس کے پاس ہمت اور حوصلہ ہوتا وہ بہتر تعلیم کے لیے شہر چلاجاتا ورنہ یہاں لوگوں کی تعلیمی قابلیت مڈل سے زیادہ نہ تھی۔
یہاں کے اکثر لوگوں کو گذر بسر کرنے کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی تھی۔مرد بھیڑیں پالتے تھے، ہوٹلوں میں بیرا گیری کرتے تھے یا دکانوں میں ملازم تھے۔ کچھ لوگ چھوٹی موٹی ملازمت کے لیے دوسرے شہروں میں چلے جاتے تھے۔ عورتیں گھر کے کام کاج کے علاوہ سلائی کڑھائی کرتی تھیں۔ بچے جو ذرا بڑی عمر کے تھے وہ بھی والدین کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ تب کہیں جاکر ان کی زندگی کا پہیہ چلتا تھا۔ عورتوں کے بنائے ہوئے کپڑے میرے جیسے شہر سے آئے لوگ کم قیمت میں خرید لیتے تھے تاکہ واپس جاکر بتا سکیں کہ دیکھو کتنی کم قیمت میں اتنی اچھی کڑھائی والے کپڑے خرید کر لائے ہیں۔ یا پھر کاروباری لوگ یہاں سے یہ کپڑے کم قیمت میں خرید کر شہر میں زیادہ نرخوں پر بیچتے تھے۔

میں جس ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا شیر خان اسی ہوٹل میں بیرا تھا۔ جلد مانوس ہونے والی اچھی طبیعت کا مالک تھا۔ میں فارغ وقت میں اکثر اس سے گپ شپ کر لیتا تھا۔ ایک دن میں نے کہا شیر خان!
تمہاری وادی کا قدرتی حُسن دیکھنے کے لائق ہے۔ اسی لیے میرے جیسے لوگ یہاں پر کھنچے چلے آتے ہیں۔ یہاں آکر پیسے خرچ کرتے ہیں جو ظاہر ہے تم لوگوں کے کام آتے ہیں۔
یہ سن کر وہ بولا جناب!
یہاں پر زیادہ تر دکانیں اور ہوٹل جن لوگوں کی ملکیت ہیں ان کا تعلق یہاں سے نہیں بلکہ بڑے شہروں سے ہے۔اور جو پیسہ آپ یہاں خرچ کرتے ہو وہ واپس آپ کے شہروں میں چلا جاتا ہے۔ہمیں صرف مزدوری بچتی ہے۔ ہماری حالت سے آپ اس کا اندازہ لگا سکتےہو۔ اپنی زندگی کی بقا کی جدوجہد میں ہم لوگ اتنے مصروف رہتے ہیں کہ ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم اتنے خوبصورت علاقے میں رہتے ہیں۔ آپ لوگ بڑے شہروں میں رہتے ہو جہاں زندگی کی تمام سہولتیں موجود ہیں۔ جب ان سے آپ کا جی بھر جاتا ہے تو آپ یہاں آجاتے ہو۔ آپ لوگوں کے پاس اتنا پیسہ ہوتا ہے کہ آپ صرف چند دن یہاں گذارنے کے لیے ہزاروں، لاکھوں خرچ کردیتے ہو۔ آپ لوگ تو جنت میں رہتے ہو جی جنت میں۔
 

یاسر شاہ

محفلین
گرد سے پاک نیلے آسمان، صاف و شفاف ٹھنڈے پانی کے چشموں، رنگ برنگے پھولوں اور ہر طرف پھیلے قدرتی سبزے سے سجی یہ ایک خوبصورت پہاڑی وادی تھی۔ ہم شہر میں رہنے والے لوگوں کے لیے یہ دور دراز حسین وادی جنت کے ٹکڑے سے کم نہیں تھی۔ میرے جیسے بہت سے لوگ بڑے شہروں کی ہر قسم کی آلودگیوں سے جان چھڑا کر اپنی زندگی کے چند روز سکون سے گذارنے کے لیے اس وادی میں آتے تھے۔

میں ان دنوں ایک غیر سرکاری ادارے میں ملازم تھا۔ اچھی خاصی تنخواہ تھی۔ دس دن کی چھٹیاں گذارنے یہاں آیا ہوا تھا۔رہائش ایک ہوٹل میں تھی۔ یہ ایک صاف ستھرا ہوٹل تھا جس میں رہائش کی کافی بہترسہولتیں مہیا کی گئی تھیں۔ کرایہ مجھے کچھ زیادہ لگا تھا۔اس میں رعایت کی غرض سے میں ہوٹل کے مالک سے ملا تو پتہ چلا کہ وہ بھی میرے ہی شہر کا رہنے والا تھا۔ یہاں وہ ہوٹل کا کاروبار چلاتا تھا۔ گرمیوں میں جب سیزن عروج پر ہوتا تھا تو وہ یہاں قیام کرتا تھا اور سردیوں میں ہوٹل ملازموں کے حوالے کرکے شہر واپس چلا جاتا تھا۔ وہ مجھ سے بہت اچھے انداز سے پیش آیا اور کرایہ بھی کم کردیا۔

وادی چونکہ بڑے شہروں سے کافی دور تھی اس لیے زندگی کی سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں۔ صحت کی سہولتوں کے لیے ایک چھوٹی سی ڈسپنسری تھی جہاں بالکل بنیادی سہولتوں کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ بیماری میں لوگ زیادہ تر ٹوٹکوں سے ہی کام چلاتے تھے۔ تعلیم کی سہولتوں کے لیے ایک مڈل سکول تھا۔ جس کے پاس ہمت اور حوصلہ ہوتا وہ بہتر تعلیم کے لیے شہر چلاجاتا ورنہ یہاں لوگوں کی تعلیمی قابلیت مڈل سے زیادہ نہ تھی۔
یہاں کے اکثر لوگوں کو گذر بسر کرنے کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی تھی۔مرد بھیڑیں پالتے تھے، ہوٹلوں میں بیرا گیری کرتے تھے یا دکانوں میں ملازم تھے۔ کچھ لوگ چھوٹی موٹی ملازمت کے لیے دوسرے شہروں میں چلے جاتے تھے۔ عورتیں گھر کے کام کاج کے علاوہ سلائی کڑھائی کرتی تھیں۔ بچے جو ذرا بڑی عمر کے تھے وہ بھی والدین کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ تب کہیں جاکر ان کی زندگی کا پہیہ چلتا تھا۔ عورتوں کے بنائے ہوئے کپڑے میرے جیسے شہر سے آئے لوگ کم قیمت میں خرید لیتے تھے تاکہ واپس جاکر بتا سکیں کہ دیکھو کتنی کم قیمت میں اتنی اچھی کڑھائی والے کپڑے خرید کر لائے ہیں۔ یا پھر کاروباری لوگ یہاں سے یہ کپڑے کم قیمت میں خرید کر شہر میں زیادہ نرخوں پر بیچتے تھے۔

میں جس ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا شیر خان اسی ہوٹل میں بیرا تھا۔ جلد مانوس ہونے والی اچھی طبیعت کا مالک تھا۔ میں فارغ وقت میں اکثر اس سے گپ شپ کر لیتا تھا۔ ایک دن میں نے کہا شیر خان!
تمہاری وادی کا قدرتی حُسن دیکھنے کے لائق ہے۔ اسی لیے میرے جیسے لوگ یہاں پر کھنچے چلے آتے ہیں۔ یہاں آکر پیسے خرچ کرتے ہیں جو ظاہر ہے تم لوگوں کے کام آتے ہیں۔
یہ سن کر وہ بولا جناب!
یہاں پر زیادہ تر دکانیں اور ہوٹل جن لوگوں کی ملکیت ہیں ان کا تعلق یہاں سے نہیں بلکہ بڑے شہروں سے ہے۔اور جو پیسہ آپ یہاں خرچ کرتے ہو وہ واپس آپ کے شہروں میں چلا جاتا ہے۔ہمیں صرف مزدوری بچتی ہے۔ ہماری حالت سے آپ اس کا اندازہ لگا سکتےہو۔ اپنی زندگی کی بقا کی جدوجہد میں ہم لوگ اتنے مصروف رہتے ہیں کہ ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم اتنے خوبصورت علاقے میں رہتے ہیں۔ آپ لوگ بڑے شہروں میں رہتے ہو جہاں زندگی کی تمام سہولتیں موجود ہیں۔ جب ان سے آپ کا جی بھر جاتا ہے تو آپ یہاں آجاتے ہو۔ آپ لوگوں کے پاس اتنا پیسہ ہوتا ہے کہ آپ صرف چند دن یہاں گذارنے کے لیے ہزاروں، لاکھوں خرچ کردیتے ہو۔ آپ لوگ تو جنت میں رہتے ہو جی جنت میں۔
خوب -آپ کی شاعری سے زیادہ آپ کی نثر اچھی ہے -
لکھتے رہیے -الله کرے زور قلم اور زیادہ
 
گرد سے پاک نیلے آسمان، صاف و شفاف ٹھنڈے پانی کے چشموں، رنگ برنگے پھولوں اور ہر طرف پھیلے قدرتی سبزے سے سجی یہ ایک خوبصورت پہاڑی وادی تھی۔ ہم شہر میں رہنے والے لوگوں کے لیے یہ دور دراز حسین وادی جنت کے ٹکڑے سے کم نہیں تھی۔ میرے جیسے بہت سے لوگ بڑے شہروں کی ہر قسم کی آلودگیوں سے جان چھڑا کر اپنی زندگی کے چند روز سکون سے گذارنے کے لیے اس وادی میں آتے تھے۔

میں ان دنوں ایک غیر سرکاری ادارے میں ملازم تھا۔ اچھی خاصی تنخواہ تھی۔ دس دن کی چھٹیاں گذارنے یہاں آیا ہوا تھا۔رہائش ایک ہوٹل میں تھی۔ یہ ایک صاف ستھرا ہوٹل تھا جس میں رہائش کی کافی بہترسہولتیں مہیا کی گئی تھیں۔ کرایہ مجھے کچھ زیادہ لگا تھا۔اس میں رعایت کی غرض سے میں ہوٹل کے مالک سے ملا تو پتہ چلا کہ وہ بھی میرے ہی شہر کا رہنے والا تھا۔ یہاں وہ ہوٹل کا کاروبار چلاتا تھا۔ گرمیوں میں جب سیزن عروج پر ہوتا تھا تو وہ یہاں قیام کرتا تھا اور سردیوں میں ہوٹل ملازموں کے حوالے کرکے شہر واپس چلا جاتا تھا۔ وہ مجھ سے بہت اچھے انداز سے پیش آیا اور کرایہ بھی کم کردیا۔

وادی چونکہ بڑے شہروں سے کافی دور تھی اس لیے زندگی کی سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں۔ صحت کی سہولتوں کے لیے ایک چھوٹی سی ڈسپنسری تھی جہاں بالکل بنیادی سہولتوں کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ بیماری میں لوگ زیادہ تر ٹوٹکوں سے ہی کام چلاتے تھے۔ تعلیم کی سہولتوں کے لیے ایک مڈل سکول تھا۔ جس کے پاس ہمت اور حوصلہ ہوتا وہ بہتر تعلیم کے لیے شہر چلاجاتا ورنہ یہاں لوگوں کی تعلیمی قابلیت مڈل سے زیادہ نہ تھی۔
یہاں کے اکثر لوگوں کو گذر بسر کرنے کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی تھی۔مرد بھیڑیں پالتے تھے، ہوٹلوں میں بیرا گیری کرتے تھے یا دکانوں میں ملازم تھے۔ کچھ لوگ چھوٹی موٹی ملازمت کے لیے دوسرے شہروں میں چلے جاتے تھے۔ عورتیں گھر کے کام کاج کے علاوہ سلائی کڑھائی کرتی تھیں۔ بچے جو ذرا بڑی عمر کے تھے وہ بھی والدین کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ تب کہیں جاکر ان کی زندگی کا پہیہ چلتا تھا۔ عورتوں کے بنائے ہوئے کپڑے میرے جیسے شہر سے آئے لوگ کم قیمت میں خرید لیتے تھے تاکہ واپس جاکر بتا سکیں کہ دیکھو کتنی کم قیمت میں اتنی اچھی کڑھائی والے کپڑے خرید کر لائے ہیں۔ یا پھر کاروباری لوگ یہاں سے یہ کپڑے کم قیمت میں خرید کر شہر میں زیادہ نرخوں پر بیچتے تھے۔

میں جس ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا شیر خان اسی ہوٹل میں بیرا تھا۔ جلد مانوس ہونے والی اچھی طبیعت کا مالک تھا۔ میں فارغ وقت میں اکثر اس سے گپ شپ کر لیتا تھا۔ ایک دن میں نے کہا شیر خان!
تمہاری وادی کا قدرتی حُسن دیکھنے کے لائق ہے۔ اسی لیے میرے جیسے لوگ یہاں پر کھنچے چلے آتے ہیں۔ یہاں آکر پیسے خرچ کرتے ہیں جو ظاہر ہے تم لوگوں کے کام آتے ہیں۔
یہ سن کر وہ بولا جناب!
یہاں پر زیادہ تر دکانیں اور ہوٹل جن لوگوں کی ملکیت ہیں ان کا تعلق یہاں سے نہیں بلکہ بڑے شہروں سے ہے۔اور جو پیسہ آپ یہاں خرچ کرتے ہو وہ واپس آپ کے شہروں میں چلا جاتا ہے۔ہمیں صرف مزدوری بچتی ہے۔ ہماری حالت سے آپ اس کا اندازہ لگا سکتےہو۔ اپنی زندگی کی بقا کی جدوجہد میں ہم لوگ اتنے مصروف رہتے ہیں کہ ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم اتنے خوبصورت علاقے میں رہتے ہیں۔ آپ لوگ بڑے شہروں میں رہتے ہو جہاں زندگی کی تمام سہولتیں موجود ہیں۔ جب ان سے آپ کا جی بھر جاتا ہے تو آپ یہاں آجاتے ہو۔ آپ لوگوں کے پاس اتنا پیسہ ہوتا ہے کہ آپ صرف چند دن یہاں گذارنے کے لیے ہزاروں، لاکھوں خرچ کردیتے ہو۔ آپ لوگ تو جنت میں رہتے ہو جی جنت میں۔
اِس جنت کا نام کیا ہے ؟
 
Top