نظام الدین
محفلین
مجھے کبھی اس چھوٹے، ترقی پذیر، گندے، ٹوٹی سڑکوں والے ملک کا شہری ہونے پر شرمندگی نہیں ہوئی۔ شاید اس وجہ سے کیوں کہ میں نے کبھی اس کے مسائل میں اضافہ نہیں کیا۔ میں نے ہمیشہ اسے اپنے پاس موجود سب سے بہترین شے دی ہے۔
آپ میں سے کوئی بھی اس چیز کو نہیں سمجھ سکتا۔ آج آپ سے آپ کا گھر چھین لیا جائے اور پھر آپ لڑجھگڑ کر میری طرح خون دے کر اس گھر کو واپس لیں تو پھر آپ کو وہ ٹوٹا پھوٹا گیا گزرا گھر جنت سے کم نہیں لگے گا تب آپ کسی کو اس کی دیوار پر ہاتھ تک نہیں رکھنے دیں گے۔۔۔۔ کہاں یہ کہ کسی کو اندر آنے دیں۔
’’میں سوچتا ہوں ابو بڑھاپا پاکستان میں ہی گزاروں۔ ساٹھ ستر سال کی عمر میں یہیں آجاؤں گا۔ انسان کو دفن اپنی مٹی میں ہی ہونا چاہئے۔ ہے نا؟‘‘
وہ مجھ سے اپنی حب الوطنی کی داد چاہ رہا تھا۔ میں نے اس کا چہرہ دیکھا اور کہا ۔۔۔۔۔۔
’’پاکستان کو تمہاری قبروں اور تابوتوں کی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان کو تمہاری جوانی اور وہ گرم خون چاہئے جو تمہاری رگوں میں خواب اور آئیڈیلزم بن کر دوڑتا ہے۔ اگر پاکستان کو اپنی جوانی نہیں دے سکتے تو اپنا بڑھاپا بھی مت دو۔ جس ملک میں تم جینا نہیں چاہتے وہاں مرنا کیوں چاہتے ہو ۔۔۔۔۔ باہر کی مٹی کی ٹھنڈک مرنے کے بعد برداشت نہیں ہوگی تب اپنی مٹی کی گرمی چاہئے؟ نہیں شاہد جمال آپ وہیں رہیں جہاں آپ رہ رہے ہیں ۔۔۔۔۔ ہر شخص کے مقدر میں باوطن ہونا نہیں لکھا ہوتا۔ بعض کے مقدر میں جلاوطنی ہوتی ہے۔ اپنی خوشی سے اختیار کی جانے والی جلا وطنی۔۔۔۔‘‘
(عمیرہ احمد کے ناول ’’مٹھی بھر مٹی‘‘ سے ایک خوبصورت اقتباس)