محمد شکیل خورشید
محفلین
ہم پہ الزامِ وفا پھر سے لگا ہے ہمدم
اپنی رسوائی کا بازار سجا ہے ہمدم
پھر ترے پیار میں بے چین ہوا ہوں جانم
دل میں پھر درد محبت کا جگا ہے ہمدم
تم کو معلوم نہیں زخمِ جدائی تیرا
ہائے ہم نے بڑی مشکل سے سہا ہے ہمدم
یہ بتاؤ تو سہی شام نے ڈھلتے ڈھلتے
کیا ترے کان میں چپکے سے کہا ہے ہمدم
ایک پل بھر کو ہمیں بھی تو ہو دیدار نصیب
ہم نے چرچا ترے پیکر کا سنا ہے ہمدم
کچھ عنایات ہوں اس پر بھی محبت نہ سہی
یہ شکیل اب بھی ترے در کا گدا ہے ہمدم
ایک پرانی غزل تقریبا 87- 1986 کے زمانے کی
محترمین
الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
و دیگر اساتذہ اور احباب کی نذر
اپنی رسوائی کا بازار سجا ہے ہمدم
پھر ترے پیار میں بے چین ہوا ہوں جانم
دل میں پھر درد محبت کا جگا ہے ہمدم
تم کو معلوم نہیں زخمِ جدائی تیرا
ہائے ہم نے بڑی مشکل سے سہا ہے ہمدم
یہ بتاؤ تو سہی شام نے ڈھلتے ڈھلتے
کیا ترے کان میں چپکے سے کہا ہے ہمدم
ایک پل بھر کو ہمیں بھی تو ہو دیدار نصیب
ہم نے چرچا ترے پیکر کا سنا ہے ہمدم
کچھ عنایات ہوں اس پر بھی محبت نہ سہی
یہ شکیل اب بھی ترے در کا گدا ہے ہمدم
ایک پرانی غزل تقریبا 87- 1986 کے زمانے کی
محترمین
الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
و دیگر اساتذہ اور احباب کی نذر