نمرہ
محفلین
ہم شک کرنے کے عادی ہیں اور جب کبھی وہم ہو جائے کہ ہماری زندگی ایک عمر کے رونے دھونے کے بعد آخر کار ترقی کی راہ پر گامزن ہے تو سپیڈ دگنی کر کے ریورس گئیر لگا دیا کرتے ہیں۔
انسان کے اندر بلاشبہ بے شمار قسم کے خوف کنڈلی مارے بیٹھے رہتے ہیں اور ان سب کی حقیقت کس نے دیکھی سمجھی ہے مگر اپنا ناکامی کا خوف ہمارے ذرا پلے نہیں پڑتا۔ہم نے آج تک کبھی کامیابی کا منہ دیکھا ہو تو ناکامی سے اس قدر گریز کی کوئی تک بھی بنے۔ جب طے ہے کہ ہمیں نکما رہنا ہے اور نتیجتا ناکام تو پھر تو زندگی میں پریشان ہونے کو کوئی معما باقی ہی نہیں رہ جاتا۔
ہم زندگی میں کافی سٹیٹس دیکھ چکے ہیں اور وائی اومنگ کے ستاروں کی کیا ہی بات ہے مگر ہم سب سے زیادہ پسند ہیں تو صرف اور صرف بیروزگاری کو۔ ہماری اس کے ساتھ چھنتی ہے اور اس کی ہمارے ساتھ کہ شہر میں اور کوئی ایسا قانع بیروزگار کہاں۔ اب تو پہچاننا مشکل ہے کہ ہم دونوں میں سے انسان کون ہے اور کمبل کون۔ انسان تو ہم یوں بھی نہیں، لیکن اس پر بحث پھر کبھی سہی۔ اب ہمیں اس سے بچھڑے زیادہ دن ہو جاتے ہیں تو اس کی یاد ایسی ستاتی ہے کہ بندھی بندھائی نوکری، دوست احباب، دشمن اور دفتر کی ٹرانسپورٹ سب کو ٹھکرا کر خالی ہاتھ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ خالی ہاتھ یوں کہ پیسہ تو یوں بھی ہاتھ کا میل ہے، ہمیں جو کچھ ملتا ہے وہ مہنگی لان اور بغیر کک کی کافی بیچنے والوں کے نصیب کا ہوتا ہے، ہمارا تھوڑا ہی حصہ ہوتا ہے اس میں۔
گرمی کے دن ہیں اور نسبتا کم گرمی کی راتیں مگر اس موسم کی سب سے اہم خاصیت یہ ہے کہ اس میں ہم اکثر بیروزگار رہا کرتے ہیں۔ لوگ بھی شاید دو قسم کے ہوتے ہیں اور موسم کے حساب سے اداس پھرتے ہیں، سردیوں کی شاموں میں یا گرمیوں کی دوپہروں میں۔ ویسے سچ یہ ہے کہ ہم اب تو بیروزگار رہ کر دکھی نہیں ہوتے بلکہ خوش رہتے ہیں کہ فلمیں دیکھنے کے لیے چوبیس گھنٹے رہ جاتے ہیں دن میں۔ اب خیال آتا ہے، دل مرا آخری خزانہ تھا نہیں جس کی ہم پر اکثر تہمت لگائی جاتی ہے، بلکہ یہ کہ پچھلے سال لگ بھگ اسی موسم میں یونہی بیکار تھے ہم۔ پھر خدا نے ہمیں ایک عدد نوکری عطا کی لیکن ہماری ناقدری وہیں کی وہیں رہی، یعنی بہت اوپر۔ ہم اپنے سوا کسی کی قدر نہیں کر سکتے اور اگر اپنی بھی کیا کرتے تو یوں برے حالوں نہ ہوتے جیسے اب ہیں۔ لیکن بھئی، نوکریوں کی قدر کرنی چاہیے کہ یہ سدا نہیں رہتیں۔
خیر پچھلے سال کی بات ہے کہ بریانی کا مسالہ بھونتے ہمیں فون آیا کہ محترمہ، تشریف لائیے اور پیسے کھائیے ہمارے۔ ایک سال تو ادھر بساط بھر غدر مچایا ہم نے۔ خلق خدا کی طرح ہماری بھی زبان کون پکڑ سکتا ہے حالانکہ سچ یہ ہے کہ وہاں لوگوں میں کم از کم بھی ہم سے دس گنا شرافت پائی جاتی تھی۔ ہم انسان نہیں بلکہ چلتا پھرتا فنومنا ہیں اور آج تک ہماری اپنی اماں ہمیں سمجھنے سے قاصر ہیں تو غریب دفتر والے کیا شے تھے۔ یوں بھی امتداد زمانہ سے ہم اب اپنے اردگرد ہر ذی نفس کو چھوٹے بچوں کے خانے میں ڈالا کرتے ہیں، تو بیچارے چھوٹے بچوں نے بھگتا ہمیں ہر طرح سے۔ ایک تو ہم، اوپر سے ہماری اردو۔ کبھی کبھی ترس آتا ہے کہ دنیا غریب کا کسی طرح ہم سے مقابلہ نہیں بنتا باتیں بنانے میں اور ہمیں بغیر لڑے جیت جانے پر یک گونہ احساس شرمندگی تو ہوا کرتا ہی ہے۔
یہاں ہم نے کس کس سے دنگا فساد نہیں کیا، اپنی مرضی اور اپنی پسند کے موضوع پر۔ ہمارے مینیجر بھی ہمیں گھبرا گھبرا کر برے کیچ کی طرح چھوڑتے گئے اور ایک دوسرے کی ذمہ داری بناتے گئے۔ ہم تو آج تک خود اپنے آپ سے ایک کام نہیں کروا سکے، یہاں کسی اور کی کیا چلتی۔ لائق صد تحسین ہیں وہ شریف لوگ جو ہمیں برداشت کرتے رہے اور وہ بھی مارکیٹ کی تنخواہ پر۔
یہ ضرور ہے کہ ہمیں پیسے یہاں اس قدر ملتے تھے کہ صبح سویرے اٹھنے اور منہ دھونے کی مشقت کا مداوا ہو جایا کرتا تھا بخوبی۔ یہ تو ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ نمبروں کا مطالعہ اور لوگوں سے کج بحثی ہم دل کی خوشی کے لیے کیا کرتے ہیں مگر صبح اٹھنا ذرا ٹیڑھا کام ہے۔ کچھ عرصہ امیر رہنے سے ہمیں امارت اور اس سے متعلقہ تمام مظاہر پر غور کرنے کا بھی موقع ملا۔ یہ قبول کرتے ہیں کہ ہماری عادتیں اس دوران کچھ بگڑ سی گئی تھیں اور ہم اتنے کی لان خریدنے لگ گئے تھے جتنے میں ولیمے کا جوڑا بھی مہنگا پڑے۔ لان بیچنے کے لیے کلاسیکی مگر مسوجنسٹ اشعار کا بگھار لگانے والے اپنی جگہ۔ اور پھر یہ تو ایک مکمل کہانی ہے کہ ہم پیسہ پھینک کر ایسی دلربا لان تو خرید سکتے ہیں مگر اس کے پہننے کے لیے جو شکل درکار ہے وہ کہاں سے لائیں، سو مخمل کے جوڑے میں لپٹے ہم ٹاٹ کے پیوند کے علاوہ کچھ نہیں لگتے۔ چلتے پھرتے کہیں کھڑکیوں کے شیشوں میں اپنی صورت دیکھیں تو اپنے کپڑوں پر ترس آنے لگتا تھا کہ آخر انھوں نے بھی کسی اچھی جگہ جانے کے خواب دیکھے ہوں گے، کاش میں تیرے بن گوش کا بندہ ہوتا۔
کافی میں بھی ہمارا طالب علمانہ سا ذوق بن گیا سو بن گیا عمر بھی کے لیے، یعنی گتے کے کپ میں سستے داموں ملے تو ہمیں پسند آتی ہے ورنہ نہیں۔ خیر یونیورسٹی میں کافی یوں بھی اچھی ملتی تھی ہمیں، مگر اب وہ بنا کر دینے والے کہاں۔ عیش کر خوباں میں اے دل شادمانی پھر کہاں، لیکن ہمیں اس وقت دھیان نہیں آیا۔ اب کافی ڈھونڈتے ہیں راول پنڈی میں لیکن ظاہر ہے، اب نہ وہ ساقی رہے باقی نہ مے خانے رہے۔ اب میں زمان کی قید کو مکان سے بدل دیجیے تو یہ ہمارا قصہ ہو جاتا ہے۔ یہاں تو بالکل اونچی دکانوں والا معاملہ ہے اور کافی بھی اسی حسابوں ملتی ہے۔ آزاد سے متاثر ہو کر ہم بھی اس کی شان میں دو چار پیرے کہہ سکتے ہیں مگر یہ ہمیں ملے تو۔ اب تو خیر کافی غریب کے ساتھ ہماری یادیں یادداشتیں اور آرزؤئیں حسرتیں زیادہ وابستہ ہیں اور اصل کی میل ملاقات کم لیکن یہ تو ہماری زندگی کی کہانی ہے۔
تتلی کے پر سے طوفان کے جنم لینے کا مشاہدہ تو کبھی نہیں کیا ہم نے مگر ہماری اپنی زندگی میں ہمیشہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے بڑی بڑی تبدیلیاں آیا کرتی ہیں۔ ایک شام اسی طرح کی مہنگی پھیکی کافی پی کر گھاس پر چھلانگیں لگاتے ہوئے ہم پر انکشاف ہوا کہ ہم اپنا بہت سا وقت ایک کمپنی کو دیتے ہیں اور بدلے میں ان سے بہت سے پیسے لے کر ایک اور کمپنی کو تھما دیتے ہیں، فلیٹ کافی کے بدلے۔ کیپٹل ازم کے ساحلوں کے بیچ ڈولنے والی کشتی سے زیادہ ہماری کچھ حیثیت نہیں، تو اس سب کا کیا ہی حاصل ہے۔ بس وہیں سے جو خیال اٹھا وہ بالآخر چار دن پہلے وقت رخصت کے ایک لیکچر پر منتہج ہوا جو ہم نے لڑکوں بالوں کو سر عام دیا، کام کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے زندگی میں اور میں کام کیوں کروں آخر۔ کہاں لکھا ہے کہ مسلسل کام کرنا ضروری ہے یا اچھی بات ہے۔
کبھی کبھی ہمیں لگتا ہے کہ ہم سے زیادہ بڑا ٹرول ملنا مشکل ہے براعظم میں۔
لوگوں کی ہمت ہے کہ انھوں نے ان تمام تر حرکتوں کے باوجود خوشی خوشی رخصت کیا۔ دو مرتبہ کیک کھلایا اور تقریریں سنیں۔ نیک تمناؤں کا اظہار کیا حالانکہ وہ ہماری زندگی میں اکارت ہی جاتی ہیں۔ یوں بھی ہمیں اس قسم کی صورت عطا ہوئی ہے کہ لوگ وقت رخصت دلنواز مسکراہٹ دے کے کہتے ہیں، بہت خوشی ہوئی آپ سے مل کر، یعنی کہ رکنے وکنے کی درخواستیں قطعا نہیں کی جاتیں ہم سے۔ اتنا بدلہ تو ہم لے ہی لیتے ہیں کہ جوابا سچ اختیار کرتے ہیں، یعنی مکمل خاموشی کہ جواب دلبراں باشد خموشی۔ خیر دلرباوں کے کمپری ہینشن والے سرکٹ عموما خراب ہوتے ہیں اور مرضی سے چلتے ہیں لیکن ان پر سجتا ہے بھئی۔ ہماری طرح ادھر ادھر کی رینڈم نوائز پکڑنے والے سرکٹ ہوں تو آزردہ رہیں اور بیروزگار رہیں، بالکل ہماری طرح۔
انسان کے اندر بلاشبہ بے شمار قسم کے خوف کنڈلی مارے بیٹھے رہتے ہیں اور ان سب کی حقیقت کس نے دیکھی سمجھی ہے مگر اپنا ناکامی کا خوف ہمارے ذرا پلے نہیں پڑتا۔ہم نے آج تک کبھی کامیابی کا منہ دیکھا ہو تو ناکامی سے اس قدر گریز کی کوئی تک بھی بنے۔ جب طے ہے کہ ہمیں نکما رہنا ہے اور نتیجتا ناکام تو پھر تو زندگی میں پریشان ہونے کو کوئی معما باقی ہی نہیں رہ جاتا۔
ہم زندگی میں کافی سٹیٹس دیکھ چکے ہیں اور وائی اومنگ کے ستاروں کی کیا ہی بات ہے مگر ہم سب سے زیادہ پسند ہیں تو صرف اور صرف بیروزگاری کو۔ ہماری اس کے ساتھ چھنتی ہے اور اس کی ہمارے ساتھ کہ شہر میں اور کوئی ایسا قانع بیروزگار کہاں۔ اب تو پہچاننا مشکل ہے کہ ہم دونوں میں سے انسان کون ہے اور کمبل کون۔ انسان تو ہم یوں بھی نہیں، لیکن اس پر بحث پھر کبھی سہی۔ اب ہمیں اس سے بچھڑے زیادہ دن ہو جاتے ہیں تو اس کی یاد ایسی ستاتی ہے کہ بندھی بندھائی نوکری، دوست احباب، دشمن اور دفتر کی ٹرانسپورٹ سب کو ٹھکرا کر خالی ہاتھ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ خالی ہاتھ یوں کہ پیسہ تو یوں بھی ہاتھ کا میل ہے، ہمیں جو کچھ ملتا ہے وہ مہنگی لان اور بغیر کک کی کافی بیچنے والوں کے نصیب کا ہوتا ہے، ہمارا تھوڑا ہی حصہ ہوتا ہے اس میں۔
گرمی کے دن ہیں اور نسبتا کم گرمی کی راتیں مگر اس موسم کی سب سے اہم خاصیت یہ ہے کہ اس میں ہم اکثر بیروزگار رہا کرتے ہیں۔ لوگ بھی شاید دو قسم کے ہوتے ہیں اور موسم کے حساب سے اداس پھرتے ہیں، سردیوں کی شاموں میں یا گرمیوں کی دوپہروں میں۔ ویسے سچ یہ ہے کہ ہم اب تو بیروزگار رہ کر دکھی نہیں ہوتے بلکہ خوش رہتے ہیں کہ فلمیں دیکھنے کے لیے چوبیس گھنٹے رہ جاتے ہیں دن میں۔ اب خیال آتا ہے، دل مرا آخری خزانہ تھا نہیں جس کی ہم پر اکثر تہمت لگائی جاتی ہے، بلکہ یہ کہ پچھلے سال لگ بھگ اسی موسم میں یونہی بیکار تھے ہم۔ پھر خدا نے ہمیں ایک عدد نوکری عطا کی لیکن ہماری ناقدری وہیں کی وہیں رہی، یعنی بہت اوپر۔ ہم اپنے سوا کسی کی قدر نہیں کر سکتے اور اگر اپنی بھی کیا کرتے تو یوں برے حالوں نہ ہوتے جیسے اب ہیں۔ لیکن بھئی، نوکریوں کی قدر کرنی چاہیے کہ یہ سدا نہیں رہتیں۔
خیر پچھلے سال کی بات ہے کہ بریانی کا مسالہ بھونتے ہمیں فون آیا کہ محترمہ، تشریف لائیے اور پیسے کھائیے ہمارے۔ ایک سال تو ادھر بساط بھر غدر مچایا ہم نے۔ خلق خدا کی طرح ہماری بھی زبان کون پکڑ سکتا ہے حالانکہ سچ یہ ہے کہ وہاں لوگوں میں کم از کم بھی ہم سے دس گنا شرافت پائی جاتی تھی۔ ہم انسان نہیں بلکہ چلتا پھرتا فنومنا ہیں اور آج تک ہماری اپنی اماں ہمیں سمجھنے سے قاصر ہیں تو غریب دفتر والے کیا شے تھے۔ یوں بھی امتداد زمانہ سے ہم اب اپنے اردگرد ہر ذی نفس کو چھوٹے بچوں کے خانے میں ڈالا کرتے ہیں، تو بیچارے چھوٹے بچوں نے بھگتا ہمیں ہر طرح سے۔ ایک تو ہم، اوپر سے ہماری اردو۔ کبھی کبھی ترس آتا ہے کہ دنیا غریب کا کسی طرح ہم سے مقابلہ نہیں بنتا باتیں بنانے میں اور ہمیں بغیر لڑے جیت جانے پر یک گونہ احساس شرمندگی تو ہوا کرتا ہی ہے۔
یہاں ہم نے کس کس سے دنگا فساد نہیں کیا، اپنی مرضی اور اپنی پسند کے موضوع پر۔ ہمارے مینیجر بھی ہمیں گھبرا گھبرا کر برے کیچ کی طرح چھوڑتے گئے اور ایک دوسرے کی ذمہ داری بناتے گئے۔ ہم تو آج تک خود اپنے آپ سے ایک کام نہیں کروا سکے، یہاں کسی اور کی کیا چلتی۔ لائق صد تحسین ہیں وہ شریف لوگ جو ہمیں برداشت کرتے رہے اور وہ بھی مارکیٹ کی تنخواہ پر۔
یہ ضرور ہے کہ ہمیں پیسے یہاں اس قدر ملتے تھے کہ صبح سویرے اٹھنے اور منہ دھونے کی مشقت کا مداوا ہو جایا کرتا تھا بخوبی۔ یہ تو ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ نمبروں کا مطالعہ اور لوگوں سے کج بحثی ہم دل کی خوشی کے لیے کیا کرتے ہیں مگر صبح اٹھنا ذرا ٹیڑھا کام ہے۔ کچھ عرصہ امیر رہنے سے ہمیں امارت اور اس سے متعلقہ تمام مظاہر پر غور کرنے کا بھی موقع ملا۔ یہ قبول کرتے ہیں کہ ہماری عادتیں اس دوران کچھ بگڑ سی گئی تھیں اور ہم اتنے کی لان خریدنے لگ گئے تھے جتنے میں ولیمے کا جوڑا بھی مہنگا پڑے۔ لان بیچنے کے لیے کلاسیکی مگر مسوجنسٹ اشعار کا بگھار لگانے والے اپنی جگہ۔ اور پھر یہ تو ایک مکمل کہانی ہے کہ ہم پیسہ پھینک کر ایسی دلربا لان تو خرید سکتے ہیں مگر اس کے پہننے کے لیے جو شکل درکار ہے وہ کہاں سے لائیں، سو مخمل کے جوڑے میں لپٹے ہم ٹاٹ کے پیوند کے علاوہ کچھ نہیں لگتے۔ چلتے پھرتے کہیں کھڑکیوں کے شیشوں میں اپنی صورت دیکھیں تو اپنے کپڑوں پر ترس آنے لگتا تھا کہ آخر انھوں نے بھی کسی اچھی جگہ جانے کے خواب دیکھے ہوں گے، کاش میں تیرے بن گوش کا بندہ ہوتا۔
کافی میں بھی ہمارا طالب علمانہ سا ذوق بن گیا سو بن گیا عمر بھی کے لیے، یعنی گتے کے کپ میں سستے داموں ملے تو ہمیں پسند آتی ہے ورنہ نہیں۔ خیر یونیورسٹی میں کافی یوں بھی اچھی ملتی تھی ہمیں، مگر اب وہ بنا کر دینے والے کہاں۔ عیش کر خوباں میں اے دل شادمانی پھر کہاں، لیکن ہمیں اس وقت دھیان نہیں آیا۔ اب کافی ڈھونڈتے ہیں راول پنڈی میں لیکن ظاہر ہے، اب نہ وہ ساقی رہے باقی نہ مے خانے رہے۔ اب میں زمان کی قید کو مکان سے بدل دیجیے تو یہ ہمارا قصہ ہو جاتا ہے۔ یہاں تو بالکل اونچی دکانوں والا معاملہ ہے اور کافی بھی اسی حسابوں ملتی ہے۔ آزاد سے متاثر ہو کر ہم بھی اس کی شان میں دو چار پیرے کہہ سکتے ہیں مگر یہ ہمیں ملے تو۔ اب تو خیر کافی غریب کے ساتھ ہماری یادیں یادداشتیں اور آرزؤئیں حسرتیں زیادہ وابستہ ہیں اور اصل کی میل ملاقات کم لیکن یہ تو ہماری زندگی کی کہانی ہے۔
تتلی کے پر سے طوفان کے جنم لینے کا مشاہدہ تو کبھی نہیں کیا ہم نے مگر ہماری اپنی زندگی میں ہمیشہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے بڑی بڑی تبدیلیاں آیا کرتی ہیں۔ ایک شام اسی طرح کی مہنگی پھیکی کافی پی کر گھاس پر چھلانگیں لگاتے ہوئے ہم پر انکشاف ہوا کہ ہم اپنا بہت سا وقت ایک کمپنی کو دیتے ہیں اور بدلے میں ان سے بہت سے پیسے لے کر ایک اور کمپنی کو تھما دیتے ہیں، فلیٹ کافی کے بدلے۔ کیپٹل ازم کے ساحلوں کے بیچ ڈولنے والی کشتی سے زیادہ ہماری کچھ حیثیت نہیں، تو اس سب کا کیا ہی حاصل ہے۔ بس وہیں سے جو خیال اٹھا وہ بالآخر چار دن پہلے وقت رخصت کے ایک لیکچر پر منتہج ہوا جو ہم نے لڑکوں بالوں کو سر عام دیا، کام کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے زندگی میں اور میں کام کیوں کروں آخر۔ کہاں لکھا ہے کہ مسلسل کام کرنا ضروری ہے یا اچھی بات ہے۔
کبھی کبھی ہمیں لگتا ہے کہ ہم سے زیادہ بڑا ٹرول ملنا مشکل ہے براعظم میں۔
لوگوں کی ہمت ہے کہ انھوں نے ان تمام تر حرکتوں کے باوجود خوشی خوشی رخصت کیا۔ دو مرتبہ کیک کھلایا اور تقریریں سنیں۔ نیک تمناؤں کا اظہار کیا حالانکہ وہ ہماری زندگی میں اکارت ہی جاتی ہیں۔ یوں بھی ہمیں اس قسم کی صورت عطا ہوئی ہے کہ لوگ وقت رخصت دلنواز مسکراہٹ دے کے کہتے ہیں، بہت خوشی ہوئی آپ سے مل کر، یعنی کہ رکنے وکنے کی درخواستیں قطعا نہیں کی جاتیں ہم سے۔ اتنا بدلہ تو ہم لے ہی لیتے ہیں کہ جوابا سچ اختیار کرتے ہیں، یعنی مکمل خاموشی کہ جواب دلبراں باشد خموشی۔ خیر دلرباوں کے کمپری ہینشن والے سرکٹ عموما خراب ہوتے ہیں اور مرضی سے چلتے ہیں لیکن ان پر سجتا ہے بھئی۔ ہماری طرح ادھر ادھر کی رینڈم نوائز پکڑنے والے سرکٹ ہوں تو آزردہ رہیں اور بیروزگار رہیں، بالکل ہماری طرح۔
آخری تدوین: