حمیرا عدنان
محفلین
کچھ دن پہلے کچن میں کام کر رہی تھی لیونگ روم میں ٹی وی چل رہا تھے آواز تقریباً مدہم ہی تھی لیکن اتنی تھی کچن میں باآسانی سنی جا سکے عربی چینل پر اسلامک پروگرام چل رہا تھا جس پر قاری ادریس ابکر کی انتہائی خوبصورت آواز میں سورۃ القیامۃ کی تلاوت لگ گئی قاری صاحب تلاوت کر رہے تھے اور میرے ذہن میں اس سورہ کا ترجمہ چل رہا تھا، تلاوت سنتے سنتے دل و دماغ کی جو حالت یا کیفیت تھی شاید کہ میں کبھی لفظوں میں بیان نہ کر سکو، عام لفظوں میں کچھ اسطرح سے کہا جائے گا کہ آنسو تو نہیں تھے لیکن آنکھوں میں ایسی بےبسی اور لاچاری تھی کہ جیسے کوئی شخص اپنا سب سے قیمتی مال اپنے ہاتھوں سے تباہ کر کے غمزدہ بیٹھا ہو، دل کی دھڑکن بظاہر تو متواتر دھڑک رہی تھی، لیکن دل ایک خوف اور ہیبت کی وجہ سے سینے سے باہر آنے کو کر رہا تھا ترجمہ جیسے جیسے ذہن میں آ رہا تھا ویسے ویسے اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے ہوئے اپنے آپ پر افسوس ہی کر رہی تھی اور دعا تھی کہ کاش مرنے سے پہلے کوئی ایسا عمل ہو جائے اللہ تعالیٰ جنت کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیں اُس عمل کے بدلے .
تھوڑے دن پہلے تفسیر کی کلاس میں ہمارے سبق میں وہ آیت بھی شامل تھی جس میں دلوں کی کمائی کا ذکر کیا گیا تھا ہمارے اعمال کا بدلہ بھی دلوں کی کیفیت کو جان کر دیا جائے گا اس سے ایک بات اور وضع ہوتی ہے کہ دل ہی مین پوائنٹ ہے اور دلوں کی کمائی بیشک عظیم کمائی ہے، اگر مثبت ہونے پر ان کا اجر زیادہ ہے تو یقیناً دل سے کئے گئے گناہوں کی سزا بھی اتنی ہی سخت ہو گی.
سورت القیامۃ کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کی قسم کھائی ہے کہ وہ دن حق ہے اور آ کر رہے گا یہاں ایک بات اور وضع ہو جاتی ہے مخلوق کے لیے یہ جائز نہیں کہ ہم اپنے خالق کے علاوہ کسی اور کی قسم کھائیں پھر چاہے وہ کوئی بھی ہو لیکن اللہ جس چیز کی چاہے قسم کھا سکتا ہے کیونکہ وہ خالق ہے اور تمام چیزیں اسی کی بنائی ہوئیں ہیں، دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے نفس لوامہ کی قسم کھائی ہے، نفس لوامہ(ملامت کرنے والا) کو ہم ضمیر بھی کہہ سکتے ہیں قیامت کے دن کے بارے میں ہمارے اندر ہی ایک گواہی موجود ہے جو ہمیں وقتاً فوقتاً ملامت کرتی رہتی ہے کہ وہ دن آنے والا ہے اپنے آپ کو تیار کر لو اس بہت بڑے دن کے لیے لیکن افسوس ہم سب کے کانوں پر تو جوں بھی نہیں رینگتی ہے.
ہم نے سمجھ رکھا ہے کہ وہ دن بہت دور ہے یا شاید کچھ نے سوچا لیا ہے مر گے مٹی ہو گے گوشت کیڑوں نے کھا لیا ہڈیاں بوسیدہ ہو گئیں تو کیا پتا اٹھائیں جائیں گئیں بھی یا نہیں، کیا وہ خالق ایک دفعہ پیدا کر کے دوبارہ پیدا نہیں کر سکتا؟ وہ تو اس بات پر بھی قادر کہ ہماری انگلیوں کے پور پور کو درست کر دے گا تو میرے بھائیو اور بہنو قسم سے قیامت دور نہیں ہے، اس دن ہماری آنکھیں چندھیا جائیں گی چاند بے نور ہو جائے گا سورج اور چاند آپس میں مل جائیں گے ہمارے پاس اس دن سے فرار ہونے کا کوئی راستہ نہیں ہو گا کوئی جائے پناہ نہیں ہوگی سب اپنے پروردگار کے سامنے ہی ہمارا ٹھکانہ ہوگا ہمیں ہمارے اعمال کی خبر دے دی جائے گی کہ ہم نے کیا آگے بھیجا اور کیا پیچھے چھوڑا، ہم اپنے آپ پر یعنی اپنی حرکتوں پر خود گواہ ہوں گے کسی اور کو ہمارے خلاف گواہی دینے کی ضرورت ہی نہیں ہو گی، یقیناً ہم اپنے اندر کو خوب جانتے ہیں،
کچھ چہرے اس دن خوبصورت، تروتازہ، خوشی سے دمک رہیں ہوں گے اپنے رب کا اپنے خالق، مالک، پروردگار کا دیدار کر رہے ہوں گے کہ یہ ہے وہ ذات جس نے مجھے دنیا میں بھی اتنی اچھی نعمتیں عطا فرمائیں اور آخرت میں بھی اتنا اچھا ٹھکانہ دیا، ہم نے تو بس اس کے حکم کی اطاعت کی اور اتنا اچھا اجر مل رہا ہے ہمیں.
اور کچھ چہرے بے رونق ہوں گے خوف گھبراہٹ ڈر ہوگا چہروں پر اپنا انجام سامنے نظر آ رہا ہوگا کہ ہم نے دنیا اپنی شرائط پر گزار کر کیا برا ٹھکانہ خرید لیا ہے اب تو ہمارے ساتھ کمر توڑ دینے والی سختی کی جائے گی ہماری جان تو اب حلق میں پھنسی رہے گی اس دن نہ تو کوئی جھاڑ پھونک والا ہو گا جو ان کی مشکل کو آسان کر سکے گا اور نہ کوئی سفارش کرنے والا ان کے کام آئے گا،
پس جس نے نہ ہی صدقہ کیا، نہ ہی نماز پڑھی، قرآن کی تعلیمات سے منہ موڑے رکھا اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کیا اور بس اپنی ہی دھن میں دنیا کے پیچھے بھاگتا رہا سارا دن اور شام کو اکڑتا ہوا گھر چلا جاتا انجام کی کوئی پرواہ نہیں ایسا شخص کے لیے ہلاکت، ہلاکت اور پھر ہلاکت ہے.
تو ہمیں اپنی عاقبت کی فکر کرنی چاہیے کب تک ان زمہ داریوں سے بھاگتے رہو گے جو اللہ نے ہم پر ڈالی ہیں کہ یہ یہ یہ کرنا ہے دنیا میں اتنے بے فکرے مت رہو، اس دن اس بات کی تفریق نہیں ہو گی کہ میں عورت ہو تو میرے ساتھ رعایت بخشی جائے گی یا میں مرد طاقتور ہوں قیامت کے دن ساری سختیاں آرام سے برداشت کر لوں گا خدارا اپنے سوچ کو بدلو اور قیامت کی فکر کرو.
تھوڑے دن پہلے تفسیر کی کلاس میں ہمارے سبق میں وہ آیت بھی شامل تھی جس میں دلوں کی کمائی کا ذکر کیا گیا تھا ہمارے اعمال کا بدلہ بھی دلوں کی کیفیت کو جان کر دیا جائے گا اس سے ایک بات اور وضع ہوتی ہے کہ دل ہی مین پوائنٹ ہے اور دلوں کی کمائی بیشک عظیم کمائی ہے، اگر مثبت ہونے پر ان کا اجر زیادہ ہے تو یقیناً دل سے کئے گئے گناہوں کی سزا بھی اتنی ہی سخت ہو گی.
سورت القیامۃ کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن کی قسم کھائی ہے کہ وہ دن حق ہے اور آ کر رہے گا یہاں ایک بات اور وضع ہو جاتی ہے مخلوق کے لیے یہ جائز نہیں کہ ہم اپنے خالق کے علاوہ کسی اور کی قسم کھائیں پھر چاہے وہ کوئی بھی ہو لیکن اللہ جس چیز کی چاہے قسم کھا سکتا ہے کیونکہ وہ خالق ہے اور تمام چیزیں اسی کی بنائی ہوئیں ہیں، دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے نفس لوامہ کی قسم کھائی ہے، نفس لوامہ(ملامت کرنے والا) کو ہم ضمیر بھی کہہ سکتے ہیں قیامت کے دن کے بارے میں ہمارے اندر ہی ایک گواہی موجود ہے جو ہمیں وقتاً فوقتاً ملامت کرتی رہتی ہے کہ وہ دن آنے والا ہے اپنے آپ کو تیار کر لو اس بہت بڑے دن کے لیے لیکن افسوس ہم سب کے کانوں پر تو جوں بھی نہیں رینگتی ہے.
ہم نے سمجھ رکھا ہے کہ وہ دن بہت دور ہے یا شاید کچھ نے سوچا لیا ہے مر گے مٹی ہو گے گوشت کیڑوں نے کھا لیا ہڈیاں بوسیدہ ہو گئیں تو کیا پتا اٹھائیں جائیں گئیں بھی یا نہیں، کیا وہ خالق ایک دفعہ پیدا کر کے دوبارہ پیدا نہیں کر سکتا؟ وہ تو اس بات پر بھی قادر کہ ہماری انگلیوں کے پور پور کو درست کر دے گا تو میرے بھائیو اور بہنو قسم سے قیامت دور نہیں ہے، اس دن ہماری آنکھیں چندھیا جائیں گی چاند بے نور ہو جائے گا سورج اور چاند آپس میں مل جائیں گے ہمارے پاس اس دن سے فرار ہونے کا کوئی راستہ نہیں ہو گا کوئی جائے پناہ نہیں ہوگی سب اپنے پروردگار کے سامنے ہی ہمارا ٹھکانہ ہوگا ہمیں ہمارے اعمال کی خبر دے دی جائے گی کہ ہم نے کیا آگے بھیجا اور کیا پیچھے چھوڑا، ہم اپنے آپ پر یعنی اپنی حرکتوں پر خود گواہ ہوں گے کسی اور کو ہمارے خلاف گواہی دینے کی ضرورت ہی نہیں ہو گی، یقیناً ہم اپنے اندر کو خوب جانتے ہیں،
کچھ چہرے اس دن خوبصورت، تروتازہ، خوشی سے دمک رہیں ہوں گے اپنے رب کا اپنے خالق، مالک، پروردگار کا دیدار کر رہے ہوں گے کہ یہ ہے وہ ذات جس نے مجھے دنیا میں بھی اتنی اچھی نعمتیں عطا فرمائیں اور آخرت میں بھی اتنا اچھا ٹھکانہ دیا، ہم نے تو بس اس کے حکم کی اطاعت کی اور اتنا اچھا اجر مل رہا ہے ہمیں.
اور کچھ چہرے بے رونق ہوں گے خوف گھبراہٹ ڈر ہوگا چہروں پر اپنا انجام سامنے نظر آ رہا ہوگا کہ ہم نے دنیا اپنی شرائط پر گزار کر کیا برا ٹھکانہ خرید لیا ہے اب تو ہمارے ساتھ کمر توڑ دینے والی سختی کی جائے گی ہماری جان تو اب حلق میں پھنسی رہے گی اس دن نہ تو کوئی جھاڑ پھونک والا ہو گا جو ان کی مشکل کو آسان کر سکے گا اور نہ کوئی سفارش کرنے والا ان کے کام آئے گا،
پس جس نے نہ ہی صدقہ کیا، نہ ہی نماز پڑھی، قرآن کی تعلیمات سے منہ موڑے رکھا اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کیا اور بس اپنی ہی دھن میں دنیا کے پیچھے بھاگتا رہا سارا دن اور شام کو اکڑتا ہوا گھر چلا جاتا انجام کی کوئی پرواہ نہیں ایسا شخص کے لیے ہلاکت، ہلاکت اور پھر ہلاکت ہے.
تو ہمیں اپنی عاقبت کی فکر کرنی چاہیے کب تک ان زمہ داریوں سے بھاگتے رہو گے جو اللہ نے ہم پر ڈالی ہیں کہ یہ یہ یہ کرنا ہے دنیا میں اتنے بے فکرے مت رہو، اس دن اس بات کی تفریق نہیں ہو گی کہ میں عورت ہو تو میرے ساتھ رعایت بخشی جائے گی یا میں مرد طاقتور ہوں قیامت کے دن ساری سختیاں آرام سے برداشت کر لوں گا خدارا اپنے سوچ کو بدلو اور قیامت کی فکر کرو.
آخری تدوین: