اپنی ماں کے نام ایک نظم ۔ بہت یاد آتی ہے

تجھ سے دور
بہت دور پردیس میں
جب کسی بیٹے کو
اپنی ماں کی انگلی پکڑئے دیکھتا ہوں
ماں مجھے تو بہت یاد آتی ہے
سارا دن میں کچھ نہیں کھاتا
پھربھی کوئی یہ پوچھتا نہیں
کہ میں نے کچھ کھایا یا کہ نہیں
اور جب بھوک کے ہاتھوں ہار کے
کسی گندھے سے ہوٹل کے
گندھے سے برتنوں میں
بدمزہ سا کھانا کھانے کی کوشش کرتا ہوں
ماں تیرے ہاتھوں کا ذائقہ
میرے لیے بنائی گئی
پتلی سی چھوٹی سی
وہ چپاتی بہت یاد آتی ہے
رات تنہاء کسی گندھے سے ہوٹل کے
چھوٹے سے کمرے کے
گندھے سے بستر میں
جب سونے کو لیٹتا ہوں
نیند تو پتا نہیں کب آتی ہے
مگرتیرا مجھے وہ لوری دے کے سلانا
تیری آغوش مجھے بہت یاد آتی ہے
یہاں ہر روز میرا بی پی ہائی ہوتا ہے
سر میں درد بھی بہت ہوتا ہے
مگر کوئی حال تک بھی پوچھتا نہیں
تب میری ہلکی سی کھانسی پہ بھی
تیرا تڑپ جانا
تیری بے چینی
مجھے بہت یاد آتی ہے
جب میں چلتے چلتے تھک جاتا ہوں
کسی پارک کے
کسی ویران سے گوشےمیں
میں بیٹھ کے رونے لگتا ہوں
تب مجھے کوئی اور یاد نہیں آتا
سچی ماں
تب مجھے کوئی اور یاد نہیں آتا
صرف تو
ہاں ماں صرف تو
بہت بہت یاد آتی ہے
ماں تیری بے بسی
میری بے کسی
اور تیری یاد
مجھے بہت رولاتی ہے
ماں مجھے تو بہت یاد آتی ہے
-------------
محمد یاسر علی
23/11/2012 4:45pm
 

اکمل زیدی

محفلین
اس ظلم کی دنیا میں فقط پیار میری ماں
ہے میرے لیے سایہِ دیوار میری ماں
نفرت کے جزیروں سے محبت کی حدوں تک
بس پیار ہے،ہاں پیار ہے،بس پیار میری ماں
 

فرح

محفلین
اس ظلم کی دنیا میں فقط پیار میری ماں
ہے میرے لیے سایہِ دیوار میری ماں
نفرت کے جزیروں سے محبت کی حدوں تک
بس پیار ہے،ہاں پیار ہے،بس پیار میری ماں
میری ماں پیاری ماں
میری محبت کی پٹاری ماں
میں جب جب سوچتی ہوں یہ
کہ دنیا کا کوئ رشتہ
کہیں تجھ سے بھی بڑھکر ھے
مگر یہ سوچ میری بس وھیں پہ ختم ھوتی ھے
خدا کے بعد بس۔۔ پھر توہی ذھن میں جنم لیتی ھے
 

فرح

محفلین
(تھوڑی سی ترمیم کے بعد کیونکہ ابھی ابھی وارد ھوئ ھے)
میری ماں پیاری ماں
میری محبت کی پٹاری ماں
میں جب جب سوچتی ہوں یہ
کہ دنیا میں کوئ رشتہ
کہیں تجھ سے بھی برتر ھے
مگر پھر سوچ میری بس یہیں پہ ختم ھوتی ھے
خد کے بعد بس۔ ۔ پھر تو ھی ذھن میں جنم لیتی ھے
 

فرح

محفلین
تجھ سے دور
بہت دور پردیس میں
جب کسی بیٹے کو
اپنی ماں کی انگلی پکڑئے دیکھتا ہوں
ماں مجھے تو بہت یاد آتی ہے
سارا دن میں کچھ نہیں کھاتا
پھربھی کوئی یہ پوچھتا نہیں
کہ میں نے کچھ کھایا یا کہ نہیں
اور جب بھوک کے ہاتھوں ہار کے
کسی گندھے سے ہوٹل کے
گندھے سے برتنوں میں
بدمزہ سا کھانا کھانے کی کوشش کرتا ہوں
ماں تیرے ہاتھوں کا ذائقہ
میرے لیے بنائی گئی
پتلی سی چھوٹی سی
وہ چپاتی بہت یاد آتی ہے
رات تنہاء کسی گندھے سے ہوٹل کے
چھوٹے سے کمرے کے
گندھے سے بستر میں
جب سونے کو لیٹتا ہوں
نیند تو پتا نہیں کب آتی ہے
مگرتیرا مجھے وہ لوری دے کے سلانا
تیری آغوش مجھے بہت یاد آتی ہے
یہاں ہر روز میرا بی پی ہائی ہوتا ہے
سر میں درد بھی بہت ہوتا ہے
مگر کوئی حال تک بھی پوچھتا نہیں
تب میری ہلکی سی کھانسی پہ بھی
تیرا تڑپ جانا
تیری بے چینی
مجھے بہت یاد آتی ہے
جب میں چلتے چلتے تھک جاتا ہوں
کسی پارک کے
کسی ویران سے گوشےمیں
میں بیٹھ کے رونے لگتا ہوں
تب مجھے کوئی اور یاد نہیں آتا
سچی ماں
تب مجھے کوئی اور یاد نہیں آتا
صرف تو
ہاں ماں صرف تو
بہت بہت یاد آتی ہے
ماں تیری بے بسی
میری بے کسی
اور تیری یاد
مجھے بہت رولاتی ہے
ماں مجھے تو بہت یاد آتی ہے
-------------
محمد یاسر علی
23/11/2012 4:45pm
حالانکہ کیکر بیچارے کے بھی اپنے پھول ہوتے ہیں۔
 
Top