طارق شاہ

محفلین
غزل
شفیق خلشؔ


اپنی مرضی سے گو نہیں آئے
رونا قسمت کا رو نہیں آئے

دُوری اِک عارضی تقاضہ تھی
اُن سے ہم ہاتھ دھو نہیں آئے

دِل کی بربادی کا سَبب ہیں وہی
کہہ کے آنے کا، جو نہیں آئے

یار مطلُوب تھے جو کاندھے کو !
دو ہی پہنچے تھے، دو نہیں آئے

بندھ ٹوٹیں گے ضبط کے سارے
یہ ہَمَیں ڈر تھا، سو نہیں آئے

آمد و رفت اپنا کامل کب !
وہ نہیں آئے تو، نہیں آئے


کم نہ برجستگی تھی طعنوں میں !
تُم نہ آئے تو، ” لو نہیں آئے


نا اُمیدی نہیں بچھوڑے پر !
کُمبھ میلے میں کھو نہیں آئے

درگُزر سے ہی نفرتوں کے، خلؔش!
بیج سینے میں بو نہیں آئے


۱۳ اگست، ۲۰۲۴
واشنگٹن، ڈی سی
 
آخری تدوین:
Top