تلمیذ
لائبریرین
ریختہ
’ریختہ‘ اردو ادب کی ایک ایسی لائبریری ہے جو جغرافیائی تقسیموں اور سرحدوں کی پابند نہیں ہے۔
اب اردو کتابیں پڑھنے والے کہیں بھی ہوں اپنی پسند کی جدید ہی نہیں قدیم اور کلاسیکی کتب بھی گھر بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں۔
ایسی ایک لائبریری کا افتتاح گیارہ جنوری 2013 کو انڈیا ہیبی ٹیسٹ سنٹر، نئی دہلی میں کیا گیا۔
جب ویب سائٹ کا اجرا ہوا، تو اُس وقت ریختہ پر تقریباً ساڑھے تین سو شاعروں کا کلام اور صرف گیارہ ای کتابیں تھیں۔
اس لائبریری میں نہ صرف کتابیں ہیں بلکہ آڈیو اور ویڈیو انٹرویو بھی ہیں اور خود شاعروں کی زبانی پڑھا ہوا کلام بھی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف آپ پڑھ سکتے ہیں بلکہ سُن اور دیکھ بھی سکتے ہیں۔
اس کی علاوہ خاص طور پر شاعری کے ساتھ مشکل الفاظ کے معنی معلوم کرنے کی بھی سہولت ہے۔ اس طرح نئے پڑھنے والی اپنا ذخیرۂ الفاظ بھی بڑھا سکیں گے اور زیادہ سے لطف بھی اٹھا سکیں گے۔
تقریباً دو سال قبل ریختہ کے سنجیو صراف کو اردو شاعری پڑھنے کے شوق میں ایک ایسی ویب سائٹ کا خیال آیا جس پر اردو شاعروں کا کلام دستیاب ہو اور نہ صرف نستعلیق اور نسخ میں ہو بلکہ رومن اور دیوناگری اور اور رومن رسم خط میں بھی ہو۔
’ریختہ‘ کے ای۔کتاب
’ریختہ‘ کے ای۔کتاب گوشے میں ہر موضوع پر کم یاب اور نایاب کتابوں، مسودوں اور دیگر اہم ادبی مواد اور عصری مطبوعات کا وسیع ذخیرہ بھی قائم کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ویب سائٹ کے سٹوڈیو میں شاعروں کی آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ بھی کی جاتی ہے اور شعری نشستوں اور مشاعروں کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔
اردو کے معروف نستعلیق اور نسخ رسم الخط کے ساتھ ساتھ دیو ناگری اور رومن رسم الخط کا اہتمام اس بدلتی ہوئی صورت حال اور نئی نسل کی ضرورتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیا گیا۔
’ریختہ‘ کے ای۔کتاب گوشے میں ہر موضوع پر کم یاب اور نایاب کتابوں، مسودوں اور دیگر اہم ادبی مواد اور عصری مطبوعات کا وسیع ذخیرہ بھی قائم کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ویب سائٹ کے سٹوڈیو میں شاعروں کی آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ بھی کی جاتی ہے اور شعری نشستوں اور مشاعروں کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔
ویسے سنجیو صراف ہندوستان کے ایک بہت ہی معروف صنعت کار ہیں۔انہیں اردو شاعری کا شوق اپنے والد سے وراثت میں ملا ہے۔ ان کے والد شعری و ادبی نشستوں کا اہتمام کرتے تھے اور وہ ان میں شامل ہوتے تھے۔ اسی سے انہیں سخن شناسی اور سخن فہمی بھی حاصل ہوئی۔
یہ نہیں کہ اردو ادب کی اور ویب سائٹس نہیں ہیں۔ لیکن جو ہیں ان پر نہ تو اتنی سرمایہ کاری کی گئی ہے اور نہ ہی اتنی لگن سے کام کیا گیا ہے۔ پھر ان پر معیار کا بھی اتنا خیال نہیں رکھا جاتا۔
شروع میں ویب کا عملہ چھ سات افراد پر مشتمل تھا جو اب پچیس افراد تک بڑھ چکا ہے جو کمپوزنگ، پروفنگ اور اپ لوڈنگ ہی میں نہیں بلکہ ویب کو پیش آنے والے تکنیکی مسائل میں بھی مہارت رکھتا ہے۔بعد میں اس ویب پر پی ڈی ایف کتابیں بھی لوڈ کی جانے لگیں جس کے لیے اب دو جدید ترین سکینر موجود ہیں۔
ان میں ہر سکینر سولہ لاکھ ہندوستانی روپے مالیت کا ہے۔ یہ رحل نما سکینر پرانی سے پرانی اور خستہ سے خستہ کتاب کو بھی نقصان پہنچائے بغیر عکس بنا سکتا یا سکین کر سکتا ہے اور ایک دن میں ایک سکینر تقریباً ڈیڑھ ہزار صفحات سکین کر سکتا ہے۔
اب ریختہ پر ساڑھے سات سو شاعروں کے شعری انتخاب اور پانچ سو سے زائد ای کتابیں ہیں اور ان کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔
ای کتابوں کے سلسلے میں کاپی رائٹ ایکٹ کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اور باقاعدہ اجازت کے بغیر کوئی کتاب شامل نہیں کی جاتی۔
ریختہ پر میر تقی میر، غالب، اقبال اور فیض احمد فیض کے لیے خصوصی شعبے الگ سے قائم کیے گئے ہیں جو نہ صرف ان کی شاعری بلکہ ان پر لکھی جانے والی کتابوں پر مشتمل ہیں۔
ریختہ کو اپنے معیار کے سبب اردو کے صف اول کے لکھنے والوں کا تعاون حاصل ہوا ہے جن میں انتظار حسین، ظفر اقبال، احمد مشتاق، فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، اسد محمد خاں، شمیم حنفی، ساقی فاروقی جیسے سینیئر اور افضال احمد سید اور عذرا عباس جیسے جدید لکھنے والے بھی شامل ہیں۔
بہت جلد ریختہ پر دستیاب تمام مصنف، کتب اور ان کے مندرجات خود ریختہ کے اپنے اور دوسرے سرچ انجنوں کے ذریعے قابلِ رسائی ہو جائیں گے۔
یہ رحل نما سکینر پرانی سے پرانی اور خستہ سے خستہ کتاب کو بھی نقصان پہنچائے بغیر سکین کر سکتا ہے
ریختہ کا دائرہ اب وسیع ہوتا جا رہا ایک خوش آئند اقدام یہ ہے کہ اجمل کمال نے اپنے پبلشنگ ادارے ’آج کی کتابوں‘ اور ’سٹی پریس بک کلب‘ کی مطبوعات اور ’آج‘ کے تمام شمارے ریختہ کے ذریعے عام کر دیے ہیں۔
اس کے علاوہ انجمن ترقی اردو (ہند) کی لائبریری کی کتابیں اور اس ادارے کی شائع کردہ مطبوعات اور مکتبہ جامعہ لمیٹڈ (جو کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا ہی ایک اشاعتی ادارہ ہے) کی مطبوعات بھی اب ریختہ پر دستیاب ہوں گی۔ ایک اندازے کے مطابق صرف انجمن کی کتابوں کی تعداد دس ہزار سے زائد ہے۔
ریختہ ہندوستان و پاکستان کے دوسرے بڑے ادبی و علمی اداروں سے بھی رجوع کر رہی ہے۔ وہ دن دور نہیں جب ریختہ برصغیر میں نہ صرف ادبی شائقین کے لیے سب سے کارآمد ہو گی بلکہ اردو تحقیق میں بھی اہم کردار ادا کرنے کے قابل ہو جائے گی۔
فی الحال ہندوستان اور پاکستان کے علاوہ سو سے زائد ملکوں سے ریختہ تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے اور تقریباً بیس ہزار سے زائد افراد ماہانہ اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
ربط:
بی بی سی اردو ڈاٹ کام:
http://www.bbc.co.uk/urdu/entertain...ta_literature_webiste_india_pakistan_zz.shtml
’ریختہ‘ اردو ادب کی ایک ایسی لائبریری ہے جو جغرافیائی تقسیموں اور سرحدوں کی پابند نہیں ہے۔
اب اردو کتابیں پڑھنے والے کہیں بھی ہوں اپنی پسند کی جدید ہی نہیں قدیم اور کلاسیکی کتب بھی گھر بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں۔
ایسی ایک لائبریری کا افتتاح گیارہ جنوری 2013 کو انڈیا ہیبی ٹیسٹ سنٹر، نئی دہلی میں کیا گیا۔
جب ویب سائٹ کا اجرا ہوا، تو اُس وقت ریختہ پر تقریباً ساڑھے تین سو شاعروں کا کلام اور صرف گیارہ ای کتابیں تھیں۔
اس لائبریری میں نہ صرف کتابیں ہیں بلکہ آڈیو اور ویڈیو انٹرویو بھی ہیں اور خود شاعروں کی زبانی پڑھا ہوا کلام بھی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف آپ پڑھ سکتے ہیں بلکہ سُن اور دیکھ بھی سکتے ہیں۔
اس کی علاوہ خاص طور پر شاعری کے ساتھ مشکل الفاظ کے معنی معلوم کرنے کی بھی سہولت ہے۔ اس طرح نئے پڑھنے والی اپنا ذخیرۂ الفاظ بھی بڑھا سکیں گے اور زیادہ سے لطف بھی اٹھا سکیں گے۔
تقریباً دو سال قبل ریختہ کے سنجیو صراف کو اردو شاعری پڑھنے کے شوق میں ایک ایسی ویب سائٹ کا خیال آیا جس پر اردو شاعروں کا کلام دستیاب ہو اور نہ صرف نستعلیق اور نسخ میں ہو بلکہ رومن اور دیوناگری اور اور رومن رسم خط میں بھی ہو۔
’ریختہ‘ کے ای۔کتاب
’ریختہ‘ کے ای۔کتاب گوشے میں ہر موضوع پر کم یاب اور نایاب کتابوں، مسودوں اور دیگر اہم ادبی مواد اور عصری مطبوعات کا وسیع ذخیرہ بھی قائم کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ویب سائٹ کے سٹوڈیو میں شاعروں کی آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ بھی کی جاتی ہے اور شعری نشستوں اور مشاعروں کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔
اردو کے معروف نستعلیق اور نسخ رسم الخط کے ساتھ ساتھ دیو ناگری اور رومن رسم الخط کا اہتمام اس بدلتی ہوئی صورت حال اور نئی نسل کی ضرورتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیا گیا۔
’ریختہ‘ کے ای۔کتاب گوشے میں ہر موضوع پر کم یاب اور نایاب کتابوں، مسودوں اور دیگر اہم ادبی مواد اور عصری مطبوعات کا وسیع ذخیرہ بھی قائم کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ ویب سائٹ کے سٹوڈیو میں شاعروں کی آڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ بھی کی جاتی ہے اور شعری نشستوں اور مشاعروں کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔
ویسے سنجیو صراف ہندوستان کے ایک بہت ہی معروف صنعت کار ہیں۔انہیں اردو شاعری کا شوق اپنے والد سے وراثت میں ملا ہے۔ ان کے والد شعری و ادبی نشستوں کا اہتمام کرتے تھے اور وہ ان میں شامل ہوتے تھے۔ اسی سے انہیں سخن شناسی اور سخن فہمی بھی حاصل ہوئی۔
یہ نہیں کہ اردو ادب کی اور ویب سائٹس نہیں ہیں۔ لیکن جو ہیں ان پر نہ تو اتنی سرمایہ کاری کی گئی ہے اور نہ ہی اتنی لگن سے کام کیا گیا ہے۔ پھر ان پر معیار کا بھی اتنا خیال نہیں رکھا جاتا۔
شروع میں ویب کا عملہ چھ سات افراد پر مشتمل تھا جو اب پچیس افراد تک بڑھ چکا ہے جو کمپوزنگ، پروفنگ اور اپ لوڈنگ ہی میں نہیں بلکہ ویب کو پیش آنے والے تکنیکی مسائل میں بھی مہارت رکھتا ہے۔بعد میں اس ویب پر پی ڈی ایف کتابیں بھی لوڈ کی جانے لگیں جس کے لیے اب دو جدید ترین سکینر موجود ہیں۔
ان میں ہر سکینر سولہ لاکھ ہندوستانی روپے مالیت کا ہے۔ یہ رحل نما سکینر پرانی سے پرانی اور خستہ سے خستہ کتاب کو بھی نقصان پہنچائے بغیر عکس بنا سکتا یا سکین کر سکتا ہے اور ایک دن میں ایک سکینر تقریباً ڈیڑھ ہزار صفحات سکین کر سکتا ہے۔
اب ریختہ پر ساڑھے سات سو شاعروں کے شعری انتخاب اور پانچ سو سے زائد ای کتابیں ہیں اور ان کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔
ای کتابوں کے سلسلے میں کاپی رائٹ ایکٹ کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اور باقاعدہ اجازت کے بغیر کوئی کتاب شامل نہیں کی جاتی۔
ریختہ پر میر تقی میر، غالب، اقبال اور فیض احمد فیض کے لیے خصوصی شعبے الگ سے قائم کیے گئے ہیں جو نہ صرف ان کی شاعری بلکہ ان پر لکھی جانے والی کتابوں پر مشتمل ہیں۔
ریختہ کو اپنے معیار کے سبب اردو کے صف اول کے لکھنے والوں کا تعاون حاصل ہوا ہے جن میں انتظار حسین، ظفر اقبال، احمد مشتاق، فہمیدہ ریاض، کشور ناہید، اسد محمد خاں، شمیم حنفی، ساقی فاروقی جیسے سینیئر اور افضال احمد سید اور عذرا عباس جیسے جدید لکھنے والے بھی شامل ہیں۔
بہت جلد ریختہ پر دستیاب تمام مصنف، کتب اور ان کے مندرجات خود ریختہ کے اپنے اور دوسرے سرچ انجنوں کے ذریعے قابلِ رسائی ہو جائیں گے۔
یہ رحل نما سکینر پرانی سے پرانی اور خستہ سے خستہ کتاب کو بھی نقصان پہنچائے بغیر سکین کر سکتا ہے
ریختہ کا دائرہ اب وسیع ہوتا جا رہا ایک خوش آئند اقدام یہ ہے کہ اجمل کمال نے اپنے پبلشنگ ادارے ’آج کی کتابوں‘ اور ’سٹی پریس بک کلب‘ کی مطبوعات اور ’آج‘ کے تمام شمارے ریختہ کے ذریعے عام کر دیے ہیں۔
اس کے علاوہ انجمن ترقی اردو (ہند) کی لائبریری کی کتابیں اور اس ادارے کی شائع کردہ مطبوعات اور مکتبہ جامعہ لمیٹڈ (جو کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا ہی ایک اشاعتی ادارہ ہے) کی مطبوعات بھی اب ریختہ پر دستیاب ہوں گی۔ ایک اندازے کے مطابق صرف انجمن کی کتابوں کی تعداد دس ہزار سے زائد ہے۔
ریختہ ہندوستان و پاکستان کے دوسرے بڑے ادبی و علمی اداروں سے بھی رجوع کر رہی ہے۔ وہ دن دور نہیں جب ریختہ برصغیر میں نہ صرف ادبی شائقین کے لیے سب سے کارآمد ہو گی بلکہ اردو تحقیق میں بھی اہم کردار ادا کرنے کے قابل ہو جائے گی۔
فی الحال ہندوستان اور پاکستان کے علاوہ سو سے زائد ملکوں سے ریختہ تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے اور تقریباً بیس ہزار سے زائد افراد ماہانہ اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
ربط:
بی بی سی اردو ڈاٹ کام:
http://www.bbc.co.uk/urdu/entertain...ta_literature_webiste_india_pakistan_zz.shtml