اپنی پڑھی گئی پسندیدہ کہانیوں کے بارے میں بتائیں

رانا

محفلین
خیال آیا کہ زندگی میں انسان نے مختلف کہانیاں پڑھی ہوتی ہیں چاہے ناول کی صورت ہوں یا ڈائجسٹ کی شکل میں۔ کچھ کہانیاں زیادہ اچھی لگتی ہیں جو کافی عرصہ گزرنے کے بعد بھی دلچسپ ہونے کی بنا پر یاد رہ جاتی ہیں۔ اس لڑی میں محفلین اپنی پڑھی گئی ایسی کہانیوں کے بارے میں بتائیں۔ اگر کہانی کا کوئی لنک مہیا ہو تو لگے ہاتھوں اسکا ذکر بھی کردیں تاکہ دوسروں کو اگر اس میں دلچسپی محسوس ہو تو وہ بھی پڑھ لیں۔

ہہاں آپ اپنے پڑھے گئے پسندیدہ ناول یا کہانی کا خلاصہ یا مرکزی خیال پیش کریں اور پھر اس پر تبصرہ کرنا چاہیں تو وہ بھی کرلیں ورنہ تبصرہ بمعہ ڈیزرٹ (تنقید) کرنے کی خدمت دوسرے بخوشی انجام دے دیں گے۔:)

ہوسکتا ہے اس طرح کی یا اس سے ملتی جلتی کوئی لڑی پہلے سے موجود ہو تو اسے کہاں ڈھونڈیں کہیں دفن ہوچکی ہوگی۔ ویسے بھی امی کہتی ہیں گڑے مردے نہیں اکھاڑتے اس لئے یہ نئی لڑی بنا ڈالی۔:)

تو میزبان ہونے کے ناطے پہلی کہانی کا ذکر ہم کردیتے ہیں۔ کئی سال پہلے جاسوسی ڈائجسٹ کے ابتدائی صفحات میں ایک کہانی پڑھی تھی جس میں ایک برفانی چیتے کی کہانی اس رنگ میں بیان کی گئی تھی جیسے کسی انسان کی کہانی بیان کی جاتی ہے۔ اس میں بتایا گیا کہ اسے بچپن میں اسکی ماں شکاریوں سے بچنے کے بارے میں بتاتی تھی۔ پھر وہ جوان ہوتا ہے اور شائد اس کے پیچھے کوئی دشمن لگ جاتا ہے یا کسی اور وجہ سے وہ لمبے سفر پر روانہ ہوتا ہے۔ اس چیتے کے سفر کر بہت دلچسپ پیرائے میں بیان کیا گیا تھا۔ سفر کے اختتام پر وہ بھوک سے نڈھال ہوتا ہے کہ ایک چھوٹا سا بچہ اسے گوشت کے ٹکڑے ڈالتا ہے۔ اس طرح اس چیتے اور بچے میں دوستی پروان چڑھتی ہے۔ یہ کہانی پڑھنے میں بہت دلچسپ تھی۔ اب پتہ نہیں الگ سے ایسی کہانیاں شائع ہوتی ہیں یا بس ڈائجسٹ کے صفحات میں ہی دفن ہو جاتی ہیں۔

اب آپ بھی اپنی پسند کی کسی کہانی کا ذکر کریں۔ اور اس کہانی کے بارے میں بھی بتائیں کہ کیا آپ نے پڑھی تھی اگر ہاں تو آپ کو کیسی لگی تھی۔
 
خیال آیا کہ زندگی میں انسان نے مختلف کہانیاں پڑھی ہوتی ہیں چاہے ناول کی صورت ہوں یا ڈائجسٹ کی شکل میں۔ کچھ کہانیاں زیادہ اچھی لگتی ہیں جو کافی عرصہ گزرنے کے بعد بھی دلچسپ ہونے کی بنا پر یاد رہ جاتی ہیں۔ اس لڑی میں محفلین اپنی پڑھی گئی ایسی کہانیوں کے بارے میں بتائیں۔ اگر کہانی کا کوئی لنک مہیا ہو تو لگے ہاتھوں اسکا ذکر بھی کردیں تاکہ دوسروں کو اگر اس میں دلچسپی محسوس ہو تو وہ بھی پڑھ لیں۔

ہہاں آپ اپنے پڑھے گئے پسندیدہ ناول یا کہانی کا خلاصہ یا مرکزی خیال پیش کریں اور پھر اس پر تبصرہ کرنا چاہیں تو وہ بھی کرلیں ورنہ تبصرہ بمعہ ڈیزرٹ (تنقید) کرنے کی خدمت دوسرے بخوشی انجام دے دیں گے۔:)

ہوسکتا ہے اس طرح کی یا اس سے ملتی جلتی کوئی لڑی پہلے سے موجود ہو تو اسے کہاں ڈھونڈیں کہیں دفن ہوچکی ہوگی۔ ویسے بھی امی کہتی ہیں گڑے مردے نہیں اکھاڑتے اس لئے یہ نئی لڑی بنا ڈالی۔:)

تو میزبان ہونے کے ناطے پہلی کہانی کا ذکر ہم کردیتے ہیں۔ کئی سال پہلے جاسوسی ڈائجسٹ کے ابتدائی صفحات میں ایک کہانی پڑھی تھی جس میں ایک برفانی چیتے کی کہانی اس رنگ میں بیان کی گئی تھی جیسے کسی انسان کی کہانی بیان کی جاتی ہے۔ اس میں بتایا گیا کہ اسے بچپن میں اسکی ماں شکاریوں سے بچنے کے بارے میں بتاتی تھی۔ پھر وہ جوان ہوتا ہے اور شائد اس کے پیچھے کوئی دشمن لگ جاتا ہے یا کسی اور وجہ سے وہ لمبے سفر پر روانہ ہوتا ہے۔ اس چیتے کے سفر کر بہت دلچسپ پیرائے میں بیان کیا گیا تھا۔ سفر کے اختتام پر وہ بھوک سے نڈھال ہوتا ہے کہ ایک چھوٹا سا بچہ اسے گوشت کے ٹکڑے ڈالتا ہے۔ اس طرح اس چیتے اور بچے میں دوستی پروان چڑھتی ہے۔ یہ کہانی پڑھنے میں بہت دلچسپ تھی۔ اب پتہ نہیں الگ سے ایسی کہانیاں شائع ہوتی ہیں یا بس ڈائجسٹ کے صفحات میں ہی دفن ہو جاتی ہیں۔

اب آپ بھی اپنی پسند کی کسی کہانی کا ذکر کریں۔ اور اس کہانی کے بارے میں بھی بتائیں کہ کیا آپ نے پڑھی تھی اگر ہاں تو آپ کو کیسی لگی تھی۔

اچھا خیال ہے۔
بھائی کوئی ایک ہوں تو بتائیں۔

جس ناول، کہانی یا افسانے پر تبصرے کا دل چاہے، فوراً شریکِ محفل کردیجیے!
 

رانا

محفلین
بھائی کوئی ایک ہوں تو بتائیں۔
کوئی پابندی تھوڑی ہے کہ ایک ہی بتانی ہے۔:) جو جو آپ کو اچھی لگیں سب کا ذکر کردیں۔ لیکن یہ خیال ضرور رکھیں کہ ایک مراسلے میں ایک ہی کا ذکر ہو تاکہ مراسلے کی طوالت پڑھنے والوں کے لئے کوفت کا موجب نہ بنے۔
 

عدنان عمر

محفلین
اردو کے معروف ادیب اور شہرۂ آفاق سب رنگ ڈائجسٹ کے روحِ رواں جناب شکیل عادل زادہ کے ناول "بازی گر" نے ایک زمانے سے ہمیں اسیر کر رکھا ہے۔
ناول کی کہانی تقسیم سے پہلے کے متحدہ ہندوستان کے ماحول میں لکھی گئی ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار ایک آشفتہ سر نوجوان بابر زمان ہے جو سینے میں دھڑکتا دل بھی رکھتا ہے اور روشن ضمیر بھی۔ اس طویل ناول میں جہاں آپ کو ایڈونچر، سسپنس اور خیر و شر کا تصادم دیکھنے کو ملتا ہے، وہیں بلکہ اس سے زیادہ ایک ادبی چاشنی اور زبان و بیان کی خوب صورتی ملتی ہے۔
میری دانست میں، خوبصورت اور نستعلیق اردو کے محبین کے لیے یہ ناول کم از کم ایک بار پڑھنا لازم ہے۔
 
آخری تدوین:
مابدولت سب رنگ ڈائجسٹ ہی میں قسط وار شائع ہونے والی شہرۂ آفاق کہانی " انکا " اور اس کے مرکزی کردار جمیل احمد خاں کا ذکر کریں گے ۔ اس قصۂ ہوشربا کے خالق جناب انوار صدیقی صاحب ہیں ۔اس کی کہانی بھی ہندوستان کے طول و عرض پر محیط ہے اور کرداروں کی اکثرت چونکہ ہندو پنڈت پجاری ہیں چنانچہ ہندی الفاظ سے پٹی پڑی ہے جو کہ پڑھنے میں خاصہ بھلا لگتا ہے ۔:):)
 
آخری تدوین:

رانا

محفلین
ک
مابدولت سب نگ ڈائجسٹ ہی میں قسط وار شائع ہونے والی شہرۂ آفاق کہانی " انکا " اور اس کے مرکزی کردار جمیل احمد خاں کا ذکر کریں گے ۔ اس قصۂ ہوشربا کے خالق جناب انوار صدیقی صاحب ہیں ۔اس کی کہانی بھی ہندوستان کے طول و عرض پر محیط ہے اور کرداروں کی اکثرت چونکہ ہندو پنڈت پجاری ہیں چنانچہ ہندی الفاظ سے پٹی پڑی ہے جو کہ پڑھنے میں خاصہ بھلا لگتا ہے ۔:):)
کچھ کہانی کے بارے میں بھی بتائیں کہ کہانی کی نوعیت یا مرکزی خیال کیا ہے اور کیا اب بھی چل رہی ہے یا ختم ہوچکی؟
 
قصۂ مذکورہ کو اختتام پذیر ہوئے بھی کم و بیش 47 سال کا عرصہ گذر چکا ہے ۔اور اپنے دور کی اس مقبول ترین سلسلے وار کہانی کو مابدولت نے اس کے زمانۂ اجراء میں نہیں پڑھا تھا بلکہ بعدۂ دو حصوں میں کتابی صورت میں ملاحظہ کیا تھا۔
کہانی کا مرکزی کردار ایک مسلم نوجوان جمیل احمد خان ہے جسے اس کے ہندو دوست رام دیال کی ماتاجی ایک پراسرار قوتوں کی حامل ننھی سی لڑکی ' انکا ' کے حصول کے لیے ہندووانہ جاپ کرنے کے لیے اکساتی ہے جس کے بعد، بقول اس ہندو عورت ، جمیل احمدخان کے سارے معاشی دلدر دور ہوجائیں گے ۔
ہیرو جمیل احمدخاں اس مشورہ کو قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے ، مگر کچھ دنوں بعد وہی ' انکا رانی ' جس کی ملکیت اور حصول کے بڑے بڑے گیانی دھیانی مہان شکتی مان پنڈت پجاری متمنی تھے ، وہ خود بہ رضا و رغبت جمیل احمد خان کے سر پر آ براجمان ہوجاتی ہے اور یوں جمیل احمد خان کی عسرت زدہ زندگی عیش وعشرت میں ڈھل جاتی ہے ، تاہم اس عیش و عشرت کی بہرحال ایک قیمت جمیل احمد خان کو چکانی پڑتی ہے ۔ ایک بھاری قیمت ۔ انکا رانی کو اپنی مافوق الفطرت وجود اور قوتوں کی قائمی و بقا کے لیے ایک مقررہ مدت کے بعد انسانی خون پینے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اور انکا کی اس ضرورت کو پورا کرنے کی غرض سے جمیل احمد خان کو اپنے ضمیر کی آواز کو دباکر ہر تھوڑے عرصے کے بعد ایک انسان کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنے پڑتے تھے ۔ اور یوں وہ جرائم کی دلدل میں دھنستا ہی چلاجاتا ہے ۔
کہاجاتا ہے کہ یہ کہانی اپنے دور میں اس قدر مقبول تھی کہ اس پر فلم بنانے کی بھی تجاویز سامنے آئیں ۔ یہ کہانی ایک ٹرینڈ سیٹر کہانی بن گئی تھی ۔مابدولت کو یاد ہے کہ 80 کے عشرے میں جب مابدولت عنفوان شباب میں ابھی قدم رنجہ فرما رہے تھے تو دو حصوں پر مشتمل دور جدید کے اس طلسم ہوشربا کتاب سے بہرہ مند تھے اور مابدولت کے احباب بھی اس کہانی کو مابدولت سے مستعار لے کر اس کا مطالعہ کیا کرتے تھے اور اس دوران اگر کوئی دوسرا دوست اس قصے کو پڑھنے کا خواہشمند ہوتا تو وہ مابدولت سے ان الفاظ میں سوالی ہوا کرتا " ہاں بھئی امین ، ذرا بتاؤ تو کہ ' انکا ' آج کل کس ( دوست ) کے سر پر ہے ؟"
ذیل میں ربط مہیا کررہا ہوں جہاں پر یہ ناول بہترین صورت میں 4 حصوں میں دستیاب ہے ۔:):)

انکا
 
آخری تدوین:

سعادت

تکنیکی معاون
Max Shulman کی لکھی ہوئی ’Love is a fallacy‘۔ دلچسپ مکالمات اور ایک شاندار کلائمکس پر مبنی یہ ہلکی پھلکی کہانی میری پسندیدہ کہانیوں میں سے ایک ہے۔ :) (بطور بونس، چند منطقی مغالطوں کا اچھا تعارف بھی موجود ہے۔)
 
Max Shulman کی لکھی ہوئی ’Love is a fallacy‘۔ دلچسپ مکالمات اور ایک شاندار کلائمکس پر مبنی یہ ہلکی پھلکی کہانی میری پسندیدہ کہانیوں میں سے ایک ہے۔ :) (بطور بونس، چند منطقی مغالطوں کا اچھا تعارف بھی موجود ہے۔)
دیئے گئے ربط پر پہنچ کر کہانی کا نصف حصہ پڑھا ، بقیہ کسی اور وقت کے لیے موخر کیا ، تاہم اس بات سے دکھ ہوا کہ ایک رکون کوٹ کے لیے بیچارہ پیئٹی اپنی گرل فرینڈ پولی کو تیاگنے پر آمادہ ہوجاتا ہے ، اور مابدولت پیئٹی کے دوست کا اس کی خواہش کا ناجائز فائدہ اٹھانے پر شدید مذمت کرتے ہیں !:):)
 
آخری تدوین:

رانا

محفلین
ہمیں بچپن سے ہی کیونکہ کہانیوں کا بہت شوق تھا اس لئے ہر کتاب کو اسی نیت سے کھول کر دیکھتے کہ اس میں کوئی کہانی مل جائے۔ اسی چکر میں ایک کزن کی بی اے کی انگلش گرامر کی کوئی کتاب بھی پوری نظر سے گزار گئے کیونکہ اس میں اردو سے ترجمہ کرنے کی مشقوں کے تحت جو پیراگراف ہوتے تھے انہیں بھی ہم کہانی سمجھ کر پڑھ جاتے رہے۔:) ایسے ہی گھر میں کہیں سے ایک پھٹا پُرانا ڈائجسٹ کہیں سے آگیا۔ اس عمر میں ہمیں بہرحال ڈائجسٹ کی کہانیوں کی کچھ سمجھ نہ آتی تھی کیونکہ اس وقت ہمارے دماغ کا سانچہ صرف شہزادے شہزادیوں اور ٹارزن جیسی کہانیوں کو سمیٹ سکتا تھا۔ اس ڈائجسٹ کے صفحات پلٹتے ہوئے اس کی ہر کہانی کو شروع تو کرتے لیکن ایک دو پیراگراف پڑھ کر ہی دل و دماغ اسے قبول کرنے سے انکاری ہوجاتے تو آگے بڑھ جاتے۔ ایسے ہی صفحات پلٹتے ہوئے ایک کہانی سامنے آئی جو قسط وار کہانی تھی جس کی غالباً وہ دوسری یا تیسری قسط تھی۔ اسے جو شروع کیا تو دلچسپی پیدا ہوئی جیسے جیسے پڑھتے گئے دلچسپی میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ پڑھتے پڑھتے دلچسپی جب عروج کو پہنچی تو کہانی کی وہ قسط ختم ہوگئی۔ اب ہم پریشان کہ آگے کیا ہوا؟ بہرحال اس کہانی نے بچپن میں ہی دل پر ایسا نقش چھوڑا کہ بعد میں بھی کئی بار اس کا خیال آجاتا اور سوچتے کاش پتہ لگ جائے کہ وہ کونسی کہانی تھی اور کہیں سے مل جائے۔ کوئی آٹھ دس سال پہلے ایک کباڑئیے کی دکان پر کسی کام سے گئے تو وہاں ایک ڈائجسٹ کی طرح کی ایک چیز نظر آئی۔ اس کا صرف سرورق اور نام ہی دیکھا تو ہمیں بچپن کی وہ کہانی یاد آگئی اور دل میں نہ جانے کیسے یہ یقین بیٹھ گیا کہ یہ وہی کہانی ہے حالانکہ ہمیں اس کہانی کا نام تک نہ پتا تھا۔ اس کے صفحات پلٹے تو کنفرم ہوگیا کہ وہی ہے۔ وہ اسکا پہلا حصہ تھا۔ پانچ میں سے چار حصے تو وہیں کباڑئیے کے پاس سے ہی مل گئے اور پھر اگلے کئے دن اس کہانی کے ساتھ گزرے۔

کافی سسپنس پیدا کرنے کی کوشش کرلی اب اس کہانی کا نام بتاہی دیتے ہیں۔:) وہ ایم اے راحت کی ’صدیوں کا بیٹا‘ تھی۔ اور بچپن میں جو قسط ہمارے سامنے آئی تھی اس میں پروفیسر اور اسکی دو بیٹیاں ویران جزیرے پر پراسرار عمارت کے اندر داخل ہورہے تھے اور آگے کے واقعات سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ بچپن میں ہم کیوں اس سے متاثر ہوئے ہوں گے۔ جنہوں نے نہیں پڑھی ہوئی ان کے لئے ہم کہانی کا مرکزی خیال بیان کردیتے ہیں۔ اس میں ایم اے راحت نے انسانی تہذیب کے ارتقا کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک پروفیسر اور اسکی دو بیٹیاں ایک جہاز کے کریش کے نتیجے میں ایک ویران جزیرے پر پہنچ جاتے ہیں۔ جہاں انہیں ایک عمارت ملتی ہے جس میں ایک انسان صدیوں سے ایک تابوت میں سورہا ہوتا ہے۔ یہ اسے جگا دیتے ہیں اور پھر وہ انہیں اپنی آپ بیتی پہلے دن سے سنانا شروع کرتا ہےکہ کیسے وہ اچانک ایک دن انسانی وجود میں متمثل ہوگیا اور پھر اسے پیٹ کی درد (بھوک) وغیرہ جیسے مسائل کا سامنا ہوا۔ اس وقت تک اسے نہیں پتہ تھا کہ اس کے علاوہ بھی کوئی انسان ہے۔ پھر اسے آہستہ آہستہ اور انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اور کہانی آگے چلتی ہے۔ کہانی کے مطابق وہ دوسروں کی طرح مرتا نہیں اس لئے ہزاروں سال کے سفر کی وہ اپنی داستان بیان کرتا ہے جو بہت دلچسپ ہوتی ہے۔
 
Top