اپنی کشتی کا میں ناخدا ہوگیا ( برائے اصلاح)

فاخر

محفلین
غزل

احمد فاخر

عشق رُوٹھا تو پھر غم سوا ہوگیا
اور میں وقفِ آہ و بُکا ہوگیا

مدتوں میری کشتی بھنور میں رہی
اپنی کشتی کا میں ناخدا ہوگیا

رنج وغم سے نہیں مُجھ کو شکوہ کوئی
زخم جو بھی ملا وُہ دَوا ہوگیا

یہ کرشمہ ترے عشق کا ہے کہ مَیں
جانِ جاں! شاعرِ خوش نوا ہوگیا

مُدتوں تھا جو دل سے ہمارے قریں
کیا ہوا کیوں وُہ ہم سے جُدا ہوگیا

آپ کیا یاد آئے ہمیں ناگہاں
زخمِ دل مندمل تھا، ہَرا ہوگیا

مطمئن ہوں کہ فا خرؔ غزل کے سبب
عشق کا قرض ہم سے ادا ہوگیا
 
آخری تدوین:
غزل

احمد فاخر

عشق رُوٹھا تو پھر غم سوا ہوگیا
اور میں وقفِ آہ و بُکا ہوگیا

مدتوں میری کشتی بھنور میں رہی
اپنی کشتی کا میں ناخدا ہوگیا

رنج وغم سے نہیں مُجھ کو شکوہ کوئی
زخم جو بھی ملا وُہ دَوا ہوگیا

یہ کرشمہ ترے عشق کا ہے کہ مَیں
جانِ جاں! شاعرِ خوش نوا ہوگیا

مُدتوں تھا جو دل سے ہمارے قریں
کیا ہوا کیوں وُہ ہم سے جُدا ہوگیا

آپ کیا یاد آئے ہمیں ناگہاں
زخمِ دل مندمل تھا، ہَرا ہوگیا

مطمئن ہوں کہ فا خرؔ غزل کے سبب
عشق کا قرض ہم سے ادا ہوگیا
خوب غزل ہے صاحب۔ داد قبول کیجئے!
 
Top