اپنی ہستی کو میں افلاک نما کیوں جانوں

لہر کو آنکھ ملی
اس نے سمندر دیکھا
اور پھراپنے تحیر کے بھنور میں ڈوبی
اپنی ہستی کو سمندر ہی سمجھ بیٹھی ہے

شب کی دیوار گری
نور کے سیلاب بہے
آنکھ ملتے ہوئی دنیا جاگی
دیکھ کر چاروں طرف نور کا سیلاب رواں
خود پہ سورج کا گماں کرتی ہے

راہ کے سحر سے منزل پہ مسافر پہنچا
اپنی رفتار پہ اترانے لگا
اور منزل پہ خدا بن بیٹھا

میں فضاؤں کا مسافر ہوں شہاب
اپنی ہستی کو میں افلاک نما کیوں جانوں
میں بشر ہوں، یہی معراج مری

بہزاد حسن شہاب
 

الف عین

لائبریرین
اچھی نظم ہے، شاید غزل شروع کی تھی، اسی کو پھیلا کر نظم کر دی، اس لئے نظم میں مقطع بھی آ گیا ہے۔
 
اچھی نظم ہے، شاید غزل شروع کی تھی، اسی کو پھیلا کر نظم کر دی، اس لئے نظم میں مقطع بھی آ گیا ہے۔
سر الف عین صاحب ، آپکی پسندیدگی کا شکریہ، آپ سے گزارش ہے کہ رہنمائی فرمائیں کہ کیا نظم میں تخلص استعمال کرنا درست ہے یا غلط؟
 

الف عین

لائبریرین
نظم میں تخلص کی روایت نہیں ہے۔ اور ضرورت بھی نہیں ہے، آئے تو کوئی حرج بھی نہیں، لیکن یہاں نظم میں قطعی بھرتی کا معلوم ہو رہا ہے۔
تعارف کے لئے یہاں آئیں۔ اور اپنے نام کا ایک نیا تھریڈ بنا دیں۔
 

غ۔ن۔غ

محفلین
لہر کو آنکھ ملی
اس نے سمندر دیکھا
اور پھراپنے تحیر کے بھنور میں ڈوبی
اپنی ہستی کو سمندر ہی سمجھ بیٹھی ہے

بہت خوب
بہت اچھا خیال ہے
داد حاضر ہے جناب
 
Top