بہزاد حسن
معطل
لہر کو آنکھ ملی
اس نے سمندر دیکھا
اور پھراپنے تحیر کے بھنور میں ڈوبی
اپنی ہستی کو سمندر ہی سمجھ بیٹھی ہے
شب کی دیوار گری
نور کے سیلاب بہے
آنکھ ملتے ہوئی دنیا جاگی
دیکھ کر چاروں طرف نور کا سیلاب رواں
خود پہ سورج کا گماں کرتی ہے
راہ کے سحر سے منزل پہ مسافر پہنچا
اپنی رفتار پہ اترانے لگا
اور منزل پہ خدا بن بیٹھا
میں فضاؤں کا مسافر ہوں شہاب
اپنی ہستی کو میں افلاک نما کیوں جانوں
میں بشر ہوں، یہی معراج مری
بہزاد حسن شہاب
اس نے سمندر دیکھا
اور پھراپنے تحیر کے بھنور میں ڈوبی
اپنی ہستی کو سمندر ہی سمجھ بیٹھی ہے
شب کی دیوار گری
نور کے سیلاب بہے
آنکھ ملتے ہوئی دنیا جاگی
دیکھ کر چاروں طرف نور کا سیلاب رواں
خود پہ سورج کا گماں کرتی ہے
راہ کے سحر سے منزل پہ مسافر پہنچا
اپنی رفتار پہ اترانے لگا
اور منزل پہ خدا بن بیٹھا
میں فضاؤں کا مسافر ہوں شہاب
اپنی ہستی کو میں افلاک نما کیوں جانوں
میں بشر ہوں، یہی معراج مری
بہزاد حسن شہاب