محمد اجمل خان
محفلین
میں ایک عام آدمی ہوں۔
میں اپنے آپ محبت کرتا ہوں۔
میں دنیا کے ہر انسان سے محبت کرتا ہوں ۔
جو اپنے آپ سے محبت کرتا ہے وہ اپنا نقصان نہیں چاہتا۔ میں بھی اپنا نقصان نہیں چاہتا۔
کسی اور کو نقصان پہنچانے والا اپنے آپ سے محبت نہیں کرتاکیونکہ کسی اور کو نقصان پہنچانے والا درحقیقت اپنے آپ کو ہی نقصان پہنچاتا ہے۔
اگر لوگوں میں صرف یہ سوچ پیدا ہو جائے کہ دوسروں کو نقصان پہنچا کر ہم اپنا ہی نقصان کرتے ہیں تو معاشرے سے ساری برائیاں ختم ہو جائے۔
لیکن یہ سوچ عقیدہ آخرت سے پیدا ہوتا ہے۔
جب موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر ایمان ہو، اپنے خالق و مالک کےسامنے پیش ہونے اور اس جبار و قہار کے سامنے اس کی نافرمانی اور ظلم و زیادتی کا حساب دینے کا احساس ہو اور پھر جزا و سزا کا یقین ہو تو انسان دنیا میں دوسروں کو نقصان پہنچا کر اپنا نقصان کیوں کرے گا؟ اور اپنے آپ کو جہنم کا ایدھن کیوں بنائے گا؟
دنیا کا نقصان تو وقتی ہے لیکن آخرت کا نقصان ابدی ہے۔
جو آخرت میں اپنا نقصان نہیں چاہتے، اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا نہیں چاہتے اور جہنم میں جانا نہیں چاہتے وہی اپنے آپ سے حقیقی محبت کرتے ہیں۔ اپنے آپ سے حقیقی محبت کرنے والے اپنی بیوی بچے، والدین، بھائی بہن، دوست احباب، دیگر رشتہ داروں اور تمام انسانوں سے، یہاں تک جانوروں سے بھی حقیقی محبت کرتے ہیں۔ پھر وہ ان تمام محبتوں پر نبی کریم ﷺ کی محبت کو فوقیت دیتے ہیں اور اپنے رب سے سب سے بڑھ کر محبت کرتے ہیں۔
وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّ۔هِ ۗ ۔۔۔ ﴿١٦٥﴾سورة البقرة
’’اور جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ اللہ سے شدید محبت کرتے ہیں‘‘
اور اللہ سے محبت خوف اور امید کے درمیان پروان چڑھتا ہے۔
تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿١٦﴾ سورة السجدة
’’ ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ رہتی ہیں اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘۔
اللہ سے محبت کا تقاضہ ہی یہ ہے کہ رحمتِ الٰہی کا امید رکھتے ہوئے اور عذابِ الٰہی سے ڈرتے ہوئے اللہ کی عبادت کی جائے۔ مسلمان نہ ہی اتنا بیباک ہوتا ہے کہ اللہ کی رحمت کے امید پر گناہیں کرتا رہے اور نہ ہی اتنا خائف ہوتا ہے اللہ کی رحمت سے مایوس ہو جائے ۔ لیکن آج کے مسلمان بڑے بیباک ہیں۔ اللہ کی رحمت کی امید پر اللہ کی نافرمانیاں کرتے ہیں‘ کرپشن‘ بدعنوانی‘ رشوت خوری‘ سود خوری‘ زنا کاری‘ فحاشی‘ بے حیائی‘ حق تلفی‘ ظلم و زیادتی وغیرہ ہر طرح کی گناہ و برائی اور خود ساختہ عبادات میں مشغول رہتے ہیں۔ یہ اللہ سے محبت نہیں بلکہ خواہش نفس اور شیطان کا کھلا دھوکا اور اللہ کی شان میں بڑی گستاخی ہے۔ ایسے لوگوں نے رب العالمین کو کیا سمجھ رکھا ہے؟
فَمَا ظَنُّكُم بِرَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٨٧﴾ سورة الصافات
’’ تو یہ تم نے رب العالمین کو کیا سمجھ رکھا ہے؟ ‘‘
اللہ کی رحمت اور بخشش کی اُمید پر اللہ کی ناراضگی کی پرواہ نہیں کرنے والااور عذاب الٰہی سے بے خوف ہو جانے والا مومن نہیں ہو سکتا۔ مومن تو ہر گناہ سے بچتے ہوئے خلوصِ نیت کے ساتھ کتاب و سنت کے مطابق نیک اعمال کرتا ہے اور اللہ کی رحمت سے اس کی قبولیت اور اس پر ثواب ملنے کی امید رکھتا ہے لیکن ساتھ ہی ڈرتا بھی رہتا ہے کہ یہ نیک اعمال اللہ کی بارگاہ میں قبول ہونے کے قابل ہیں بھی یا نہیں۔ اسی طرح جب اس سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے توفوراً ہی سچی توبہ کرکے اللہ کی رحمت سے اپنی مغفرت کا امید رکھتا ہے اور ساتھ ہی اللہ سے ڈرتا بھی رہتا ہے کہ اگر توبہ قبول نہیں ہوئی اور رب ناراض رہا تو کیا ہوگا؟
کیونکہ وہ جانتا ہے:
انَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ ﴿١٢﴾ سورة البروج
’’ یقیناً تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے‘‘۔
وَاللَّ۔هُ عَزِيزٌ ذُو انتِقَامٍ ﴿٤﴾سورة آل عمران
’’ اور اللہ سخت قوت والا انتقام لینے والا ہے‘‘۔
إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌ ﴿٧﴾ مَّا لَهُ مِن دَافِعٍ ﴿٨﴾سورة الطور
’’ یقیناً آپ کے رب کا عذاب واقع ہو کر رہنے والا ہے۔ اُس عذاب کو ٹالنے والا کوئی نہیں ‘‘۔
ایک مومن کی نظر"اللہ کے عذاب وپکڑ کے خوف پر بھی ہوتی ہے اور اللہ کی رحمت اور بخشش کی امید" پر بھی لگی رہتی ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ’’ اللہ تعالیٰ سزا بھی سخت دینے والاہے اور اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور بڑی رحمت والا بھی ہے‘‘۔
اعْلَمُوا أَنَّ اللَّ۔هَ شَدِيدُ الْعِقَابِ وَأَنَّ اللَّ۔هَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٩٨﴾ سورة المائدة
’’ تم یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ سزا بھی سخت دینے والا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور بڑی رحمت والا بھی ہے‘‘۔
وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا ۚ إِنَّ رَحْمَتَ اللَّ۔هِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ ﴿٥٦﴾ سورة الأعراف
’’اور اللہ کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے رہو، بے شک اللہ کی رحمت نیک لوگوں سے بہت قریب ہے‘‘۔
اس طرح محسنین یعنی نیک لوگ اس امید اور خوف کے درمیان اعتدال وتوازن برقرار رکھتے ہوئے اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری میں زندگی بسر کرتے ہیں اور اپنے آپ کو عذابِ الٰہی اور ہمیشہ کی جہنم سے بچانے کی سعی کرتے رہتے ہیں۔ یہی انسان کی اپنے آپ سے حقیقی محبت ہے۔ اپنے آپ سے محبت کرنے والے ہی اپنے رب سے شدید محبت کرتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ سے اپنی جان‘ اپنے والدین‘ اپنی بیوی بچے اور تمام انسانوں سے زیادہ محبت کرتے ہیں ۔ رب کی نافرمانیوں سے بچتے ہیں۔ اپنے آپ کو جہنم کا ایدھن بننے سے بچاتے ہیں اور اپنے آپ کو ہمیشہ کی آرام و آسائش والی رب کی جنت میں لے جانے کی سعی کرتے ہیں اور اپنی زندگی کو دوام بخشتے ہیں۔
لہذا اپنے آپ سے حقیقی محبت کیجئے اور اپنے رب سے شدید محبت کرنے کا ثبوت دیجئے۔
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ وَحُبَّ عَمَلٍ يُقَرِّبُنِي إِلَى حُبِّكَ
یا اللہ! میں تجھ سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں، اور تجھ سے محبت کرنے والے کی محبت کا ، اور ہر ایسے عمل کی محبت کا جو تیری محبت کے قریب تر کر دے۔ آمین
تحریر: محمد اجمل خان
میں اپنے آپ محبت کرتا ہوں۔
میں دنیا کے ہر انسان سے محبت کرتا ہوں ۔
جو اپنے آپ سے محبت کرتا ہے وہ اپنا نقصان نہیں چاہتا۔ میں بھی اپنا نقصان نہیں چاہتا۔
کسی اور کو نقصان پہنچانے والا اپنے آپ سے محبت نہیں کرتاکیونکہ کسی اور کو نقصان پہنچانے والا درحقیقت اپنے آپ کو ہی نقصان پہنچاتا ہے۔
اگر لوگوں میں صرف یہ سوچ پیدا ہو جائے کہ دوسروں کو نقصان پہنچا کر ہم اپنا ہی نقصان کرتے ہیں تو معاشرے سے ساری برائیاں ختم ہو جائے۔
لیکن یہ سوچ عقیدہ آخرت سے پیدا ہوتا ہے۔
جب موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر ایمان ہو، اپنے خالق و مالک کےسامنے پیش ہونے اور اس جبار و قہار کے سامنے اس کی نافرمانی اور ظلم و زیادتی کا حساب دینے کا احساس ہو اور پھر جزا و سزا کا یقین ہو تو انسان دنیا میں دوسروں کو نقصان پہنچا کر اپنا نقصان کیوں کرے گا؟ اور اپنے آپ کو جہنم کا ایدھن کیوں بنائے گا؟
دنیا کا نقصان تو وقتی ہے لیکن آخرت کا نقصان ابدی ہے۔
جو آخرت میں اپنا نقصان نہیں چاہتے، اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا نہیں چاہتے اور جہنم میں جانا نہیں چاہتے وہی اپنے آپ سے حقیقی محبت کرتے ہیں۔ اپنے آپ سے حقیقی محبت کرنے والے اپنی بیوی بچے، والدین، بھائی بہن، دوست احباب، دیگر رشتہ داروں اور تمام انسانوں سے، یہاں تک جانوروں سے بھی حقیقی محبت کرتے ہیں۔ پھر وہ ان تمام محبتوں پر نبی کریم ﷺ کی محبت کو فوقیت دیتے ہیں اور اپنے رب سے سب سے بڑھ کر محبت کرتے ہیں۔
وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّ۔هِ ۗ ۔۔۔ ﴿١٦٥﴾سورة البقرة
’’اور جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ اللہ سے شدید محبت کرتے ہیں‘‘
اور اللہ سے محبت خوف اور امید کے درمیان پروان چڑھتا ہے۔
تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿١٦﴾ سورة السجدة
’’ ان کی کروٹیں اپنے بستروں سے الگ رہتی ہیں اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘۔
اللہ سے محبت کا تقاضہ ہی یہ ہے کہ رحمتِ الٰہی کا امید رکھتے ہوئے اور عذابِ الٰہی سے ڈرتے ہوئے اللہ کی عبادت کی جائے۔ مسلمان نہ ہی اتنا بیباک ہوتا ہے کہ اللہ کی رحمت کے امید پر گناہیں کرتا رہے اور نہ ہی اتنا خائف ہوتا ہے اللہ کی رحمت سے مایوس ہو جائے ۔ لیکن آج کے مسلمان بڑے بیباک ہیں۔ اللہ کی رحمت کی امید پر اللہ کی نافرمانیاں کرتے ہیں‘ کرپشن‘ بدعنوانی‘ رشوت خوری‘ سود خوری‘ زنا کاری‘ فحاشی‘ بے حیائی‘ حق تلفی‘ ظلم و زیادتی وغیرہ ہر طرح کی گناہ و برائی اور خود ساختہ عبادات میں مشغول رہتے ہیں۔ یہ اللہ سے محبت نہیں بلکہ خواہش نفس اور شیطان کا کھلا دھوکا اور اللہ کی شان میں بڑی گستاخی ہے۔ ایسے لوگوں نے رب العالمین کو کیا سمجھ رکھا ہے؟
فَمَا ظَنُّكُم بِرَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٨٧﴾ سورة الصافات
’’ تو یہ تم نے رب العالمین کو کیا سمجھ رکھا ہے؟ ‘‘
اللہ کی رحمت اور بخشش کی اُمید پر اللہ کی ناراضگی کی پرواہ نہیں کرنے والااور عذاب الٰہی سے بے خوف ہو جانے والا مومن نہیں ہو سکتا۔ مومن تو ہر گناہ سے بچتے ہوئے خلوصِ نیت کے ساتھ کتاب و سنت کے مطابق نیک اعمال کرتا ہے اور اللہ کی رحمت سے اس کی قبولیت اور اس پر ثواب ملنے کی امید رکھتا ہے لیکن ساتھ ہی ڈرتا بھی رہتا ہے کہ یہ نیک اعمال اللہ کی بارگاہ میں قبول ہونے کے قابل ہیں بھی یا نہیں۔ اسی طرح جب اس سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے توفوراً ہی سچی توبہ کرکے اللہ کی رحمت سے اپنی مغفرت کا امید رکھتا ہے اور ساتھ ہی اللہ سے ڈرتا بھی رہتا ہے کہ اگر توبہ قبول نہیں ہوئی اور رب ناراض رہا تو کیا ہوگا؟
کیونکہ وہ جانتا ہے:
انَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ ﴿١٢﴾ سورة البروج
’’ یقیناً تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے‘‘۔
وَاللَّ۔هُ عَزِيزٌ ذُو انتِقَامٍ ﴿٤﴾سورة آل عمران
’’ اور اللہ سخت قوت والا انتقام لینے والا ہے‘‘۔
إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌ ﴿٧﴾ مَّا لَهُ مِن دَافِعٍ ﴿٨﴾سورة الطور
’’ یقیناً آپ کے رب کا عذاب واقع ہو کر رہنے والا ہے۔ اُس عذاب کو ٹالنے والا کوئی نہیں ‘‘۔
ایک مومن کی نظر"اللہ کے عذاب وپکڑ کے خوف پر بھی ہوتی ہے اور اللہ کی رحمت اور بخشش کی امید" پر بھی لگی رہتی ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ’’ اللہ تعالیٰ سزا بھی سخت دینے والاہے اور اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور بڑی رحمت والا بھی ہے‘‘۔
اعْلَمُوا أَنَّ اللَّ۔هَ شَدِيدُ الْعِقَابِ وَأَنَّ اللَّ۔هَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٩٨﴾ سورة المائدة
’’ تم یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ سزا بھی سخت دینے والا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور بڑی رحمت والا بھی ہے‘‘۔
وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا ۚ إِنَّ رَحْمَتَ اللَّ۔هِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ ﴿٥٦﴾ سورة الأعراف
’’اور اللہ کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے رہو، بے شک اللہ کی رحمت نیک لوگوں سے بہت قریب ہے‘‘۔
اس طرح محسنین یعنی نیک لوگ اس امید اور خوف کے درمیان اعتدال وتوازن برقرار رکھتے ہوئے اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری میں زندگی بسر کرتے ہیں اور اپنے آپ کو عذابِ الٰہی اور ہمیشہ کی جہنم سے بچانے کی سعی کرتے رہتے ہیں۔ یہی انسان کی اپنے آپ سے حقیقی محبت ہے۔ اپنے آپ سے محبت کرنے والے ہی اپنے رب سے شدید محبت کرتے ہیں اور رسول اللہ ﷺ سے اپنی جان‘ اپنے والدین‘ اپنی بیوی بچے اور تمام انسانوں سے زیادہ محبت کرتے ہیں ۔ رب کی نافرمانیوں سے بچتے ہیں۔ اپنے آپ کو جہنم کا ایدھن بننے سے بچاتے ہیں اور اپنے آپ کو ہمیشہ کی آرام و آسائش والی رب کی جنت میں لے جانے کی سعی کرتے ہیں اور اپنی زندگی کو دوام بخشتے ہیں۔
لہذا اپنے آپ سے حقیقی محبت کیجئے اور اپنے رب سے شدید محبت کرنے کا ثبوت دیجئے۔
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ وَحُبَّ عَمَلٍ يُقَرِّبُنِي إِلَى حُبِّكَ
یا اللہ! میں تجھ سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں، اور تجھ سے محبت کرنے والے کی محبت کا ، اور ہر ایسے عمل کی محبت کا جو تیری محبت کے قریب تر کر دے۔ آمین
تحریر: محمد اجمل خان