محمد بلال افتخار خان
محفلین
مجھے بچپن سے ہی کتابیں پرھنے کا شوق رہا ہے۔۔۔اللہ ابو کو عمر دراز اور صحت عطا فرمائے انھوں نے ہم سب بہن بھائیون کو اچھے اداروں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ ہم میں کتاب بینی کا شوق بھی ابھارا۔۔۔ زندگی میں،میں نے نصابی کتب کے علاوہ ہر کتاب کو رغبت سے پڑھا۔۔ اور اسے اپنی ذات میں مثبت تبدیلی کا ذریعہ بنایا۔۔
میرے بھائی میری آج کی تحریر تمھارے نام ہے۔۔ اور امید ہے کہ تم اپنے اس بھائی کی اس تحریر کو پڑھو گے اور اپنے حصے کی چیز لے کر اپنی زندگی کو ایک نئے طریقے سے دیکھنے اور سمجھنے کی کو شش کرو گے۔۔۔
چھوٹے بھائی۔۔ ہم انسان زمان اور مکان کے قیدی ہیں۔ یہ دنیا اور اس کی زندگی ایک امتحان ہے جس میں کامیابی پر اللہ کی عنایات اور ناکامی پر حساب اور سزا ہے۔
زمان یعنی وقت اور مکان یعنی مادی دنیا جسے آپ فیزیکل ورلڈ کہتے ہیں۔ ہم ایک نظام شمسی میں رہتے ہیں۔۔ یہان ایک سورج ہے اور 9 سیارے ہیں۔۔ ہماری زمین سورج کے گرد ایک چکر 365 دنوں میں لگاتی ہے۔۔ یہ 365 دن ہمیں وقت کا تعین کرنے میں مدد دیتے ہیں۔۔۔ یہ جارجین طریقہ ہے وقت ناپنے کا۔ جو اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک استعمال کر رہے ہیں۔۔ ہم مسلمان اپنے سال اور مہینوں کا تعین چاند کے مطابق کرتے ہیں۔
زمین سورج کے گرد چکر لگاتی ہے۔ یہ چکر وہ سپین یا گھومتے ہوئے کرتی ہے یعنی اس کا ایک حصہ سورج کی جانب ہوتا ہے اور دوسرا مخالف سمت اور پھر مخالف سمت والا حصہ سورج کے سامنے آ جاتا ہے اور سامنے والا حصہ پچھلی جانب چلا جاتا ہے۔ یہ پراسس 24 گھنٹوں میں پورا ہوتا ہے اور دن اور رات سورج کے سامنے ہونے یا مخالف سمت ہونے کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں۔
فزکس میں وقت کی تعریف یوں کی جاتی ہے۔۔۔ دو واقعات کے درمیانی فاصلے کو وقت کہتے ہیں۔۔
زمین پر ایک سال 365 دنوں کا ہوتا ہے مگر یہ ایک سال مشتری میں 88دنوں کا ہوتا ہے جبکہ پلوٹو میں ایک سال ہمارے 246 سالوں کے برابر ہوتا ہے یعنی اس کا ایک دن زمین کے تقریباً ساڈھے چھ دنوں کے برابر ہوتا ہے
چھوٹے بھائی زمان و مکان کا ہم سے یہ تعلق زندگی کے لئے بہت ضروری ہے کیونکہ اس کی وجہ سے ہمارے لئے ارتقا اور ترقی کے مراحل پیدا ہوتے ہیں۔
زمان اور مکان کا ہم سے یہ تعلق سفر زندگی کے جاری رہنے کا باعث بنتا ہے۔۔یہ اسی کی بدولت حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔۔۔ غم ختم ہو جاتے ہیں۔۔ ہم اپنے سامنے اپنے بچوں کو بڑھتا ہوا دیکھتے ہیں۔۔۔ اور ان کی خوشیوں سے محزوز ہوتے ہیں۔ بچپن سے جوانی آتی ہے، پھر بڑھاپا اور پھر اختتام۔۔
جہان یہ زمان و مکان کی قید ایک امتحان ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزت کی ایک ایسی عطا ہے جس کی وجہ سے تبدیلیاں آتی ہیں۔۔ شعور اور تجربات میں اضافہ ہوتا ہے۔۔ جو زندگی اور مقاصد زندگی سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ جیسا کہ رب ذوالجلال والاکرام کا قول ہے۔
بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے بدل بدل کے آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں
(آل عمران،آیت ۱۹۰))
میرے بھائی اللہ نے تمام چیزوں کے جوڑے اور متضاد بنائے ہیں۔۔۔ دن کے ساتھ رات ہے، خوشی کے ساتھ غمی ہے، بہار کے ساتھ خزان ہے، اندھیرے کے ساتھ اجالا ہے، ہار کے ساتھ جیت بھی ہے، وغیرہ وغیرہ۔۔۔
تم غمگین کیون رہتے ہو؟
شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ تم یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ زندگی کیا ہے۔۔۔ یا تم نے کبھی اس پر غور کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔۔۔ یا شاید تم نے زمان و مکان کے ایک نقطے پر۔۔۔خودکو روک رکھا ہے اور تم آگے نہیں بڑھ پا رہے۔
سنو اور غور سے سنو۔۔۔ ایک مقام پر رک جانا خلافِ فطرت ہے۔۔۔ کیونکہ فطرت تبدیلی یا ارتقا کا درس دیتی ہے جبکہ رک جانا موت کی نشانی ہے۔ برے وقت سے اسباق حاصل کئے جاتے ہیں نہ کہ اس میں رہ کر حال اور مستقبل کو تاریک کیا جاتا ہے۔
اللہ رب العزت نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ اسے نفس، جسم اور روح کا مرکب بنایا ہے۔ نفس کا فیضان خودی ہے یعنی اپنی ذات کا احساس اور اہمیت کا ادراک ہے۔ نفس انسانی پر اس کے تھاٹ پراسس یا سوچ کے اثرات ہوتے ہیں۔
میرے بھائی۔۔۔ اللہ رب العزت رحمٰن اور رحیم ہے۔ اسی لئے دنیا میں جتنی بھی جسمانی، روحانی اور نفسیاتی بیماریان ہیں۔۔۔ سب کا علاج اور دوا بھی موجود ہے۔۔۔
نفسیات دانوں کا کہنا تھا کہ لا شعور ایک سٹور ہاؤس ہے جہان ہم اپنی منفی سوچوں کو دھکیلتے ہیں۔۔ سوچ بھی طاقت یا انرجی ہوتی ہے۔ جب ہم یہ منفی انرجی نکلنے نہیں دیتے اور اس کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں تو ایک وقت آتا ہے کہ لا شعور اس منفی انرجی سے بھر جاتا ہے۔۔۔ پھر یہ انرجی یا طاقت ہمیں کنٹرول کرتی۔۔ وہ باہر نکلے کی کوشش کرتی ہے اور ہم بے بس ہو کر مختلف نفساتی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
منفی سوچون کی وجہ کچھ بھی ہو سکتی ہے۔۔ کوئی ڈر،خوف ،واقعہ،نفرت، تعصب یا کچھ اور۔ ہم میں سے اکثر اپنے خوف سے ڈرتے ہیں۔ نفس حقیقت سے بھاگنا چاہتا ہے۔۔۔ اس لئے ہم کوشش کرتے ہیں کہ ہمارا۔۔اپنے خوف سے کبھی ٹاکرا نہ ہو۔
اور یہ ہی بات ہمارے لئے الجھنوں کا باعث بنتی ہے۔ پھر ہمارا معاشرہ حرکت میں آتا ہے اور جان بھوج کر ہمیں ہمارے خوف کا آئینہ دیکھاتا ہے جو لاشعور میں مزید منفی انرجی کا سبب بنتا ہے۔
کیا اس خوف کا علاج ہے؟
ہاں بالکل ہے۔۔۔ آپ جن سوچوں اور خوف سے بھاگنا چاہتے ہیں ان کا ہیڈ آن سامنا کرین۔ جب تک آپ خوف کا سامنا کرنے سے ڈریں گے۔۔۔ خوف بچے دے گا۔ لیکن جیسے ہی آپ اس کا سامنا کرین گے۔۔۔ خوف اپنا اثر کھونے لگ جائے گا اور اپنی موت آپ مر جائے گا۔
آپ یہ سمجھ اور مان بیھٹے ہیں کہ آپ تعلیم میں بہت کمزور ہیں اور آپ میں خود اعتمادی نام کی چیز نہیں۔۔۔ اسی وجہ سے آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ ایک ناکام زندگی گزار رہے ہیں اور کامیابی کی کوئی امید نہیں۔
پیارے بھائی! آپ میں اعتماد کا نہ ہونا صرف اس وجہ سے ہے کہ آپ نے کبھی خود پر اعتماد کرنا ہی نہیں چاہا۔ آپ نے ناکامیون کا تو اثر لیا لیکن کبھی وجوہات پر غور نہیں کیا۔ آہستہ آہستہ آپ خود سے ہار گئے۔۔۔ آپ بیمار رہنے لگے، اور زندگی سے کترانا شروع کر دیا۔
ناکامی کا خوف اچھی چیز ہے، لیکن صرف تب جب اس سے بچنے کے لئے دماغ استعمال کیا جائے۔ آپ نے پہلا حصہ اپنایا مگر دوسرے پر غور نہیں کیا اور یوں احساسِ عدم اعتماد پیدا ہوا جس کا اثر آپ کی ذات پر حاوی ہونے لگا اور اس کے باعث آپ میں احساس لا تعلقی پیدا ہوا۔۔۔ آپ ڈپریشن اور انگزائٹی (anxiety) کا شکار ہونے لگے۔ آپ کو اپنے عزیزون سے متعلق انسکیوڑتی پیدا ہونا شروع ہو گئی۔ آپ کو یہ ڈر لگنے لگا کہ اگر یہ آپ سے دور ہو گئے تو آپ اس دنیا میں کیسے جیئیں گے۔۔۔ کیونکہ ان کی موجودگی میں آپ خود کو سیکیور سمجھتے ہیں۔
دوست ہم مسلمان ہیں۔ کیا آپ نے کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کیا؟
جن حالات سے اللہ کے محبوب، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم گزرے اور جیسے سرکار نے حالات کا مقابلہ کیا وہ تمام انسانیت کے لئے مشعل راہ ہے۔ آپ طائف کا واقعہ ہی دیکھ لین۔۔۔ آپ کو احساس ہو گا کہ سیرت کا ایک پیغام اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے تمام سختیوں کا مقابلہ کرنا ہے۔۔
میرے بھائی تم تو چند ناکامیون سے گھبرا گئے اور خود پر ایک خول چڑھا لیا۔۔۔ تم ماشاء اللہ مسلم ہو۔۔۔ سیرت کا مطالعہ کرو اور اپنے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سیکھو۔۔
مشکلات اور ناکامیان تو کامیابی کی نوید ہوتی ہیں۔ سختی آتی ہے تو ہی نرمی آتی ہے۔ سختی کی بھٹی سے گزرا ہوا انسان ہی کامیابی اور عظمت پاتا ہے۔۔۔
ہاں مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے
(سورۃ الم نشرح)
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ حالات کیسے بدل سکتے ہیں؟
سنو اور غور سے سنو کہ آپ نے میٹرک میں فزکس پڑھی ہو گی ایک اصول جو لاء آف کنزرویشن آف انرجی کہلاتا ہے۔۔ جو کہتا ہے کہ انرجی کو ایک قسم سے دوسری قسم میں تبدیل کیا جا سکتا ہے مگر اسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
آپ کے لا شعور میں منفی انرجی جمع ہے۔ اس انرجی کو مثبت انداز میں نکالو۔۔۔ مثلاً جب میں فرسٹریٹ ہوتا ہوں تو لکھنا شروع کر دیتا ہوں۔۔۔ جو دل میں آئے لکھتا ہوں پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ انرجی قلم کے ذریعے کاغذ پر منتقل ہو جاتی ہے اور مجھ سے نکل کر تحریر بن جاتی ہے۔ اس کا ایک مثبت اثر یہ بھی ہوتا ہے کہ میری تحریروں میں پختگی آتی ہے۔
خود میں مطالعے کی عادت ڈالو۔۔۔ خصوصاً سیرت کا مطالع کرو۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات مبارکہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ آپ کی حیات مبارکہ کا مطالعہ جہان ہم میں عشق نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پیدا کرتا ہے وہاں حالات و واقعات کا مثبت انداز میں مقابلہ کرنے کا حوصلہ بھی دیتا ہے۔
تیسری بات اپنی ان سیکیوڑٹیز سے چھپنے کی بجائے ان کا مقابلہ کرو۔۔ آپ آدم علیہ سلام کے بیٹے ہو جن کو اللہ رب العزت نے خلافتِ ارضی عطا فرمائی۔ اللہ نے آپ کو نارمل پیدا کیا اور سوچنے والا دماغ عطا کیا۔ آپ خود احتسابی کرو کہ کہاں آپ سے کمی رہ گئی ہے۔ ان عنایات پر غور کرو جن سے رب العزت نے آپ کو نوازا ہے۔ ان چیزون پر غور مت کرو جو آپ کے اختیار میں نہیں۔۔۔ محنت کرو۔۔۔ اپنی کتابوں میں دلچسپی لو۔۔ اور اپنے لئے اونچے مقاصد رکھو۔۔ کسی کھیل میں حصہ لو، صبح کی سیر کو معمول بناؤ۔۔۔
میرے بھائی انسان ایک حد تک دوسرے کی مدد کر سکتا ہے۔۔۔ بعض اوقات اپنے چاہتے ہوئے بھی آپ کی مدد نہیں کر سکتے۔۔ صرف ایک ذات ہے جو ہر حال میں آپ کی مدد کرتی ہے۔۔ وہ ذات ہے اللہ رب العزت کی کیونکہ وہ آپ کا خالق بھی ہے، مالک بھی ہے اور رب بھی۔۔۔ اپنے مثائل اس کے سامنے بیان کرو اور اس سے مدد مانگو۔ جس دن آپ نے اس سے تعلق جوڑ لیا تو یقین جانو کبھی کوئی خوف یا وسوسہ آپ کو خراب نہیں کر سکے گا۔
اس کے علاوہ غور و فکر کی عادت ڈالو اور ہر چیز کا مثبت رخ دیکھو۔۔۔ دیکھنے کا انداز بھی چیزون کی حقیقت تبدیل کر دیتا ہے۔
اللہ تمھیں خوش رکھے۔ اپنی عزت کرو اور اعتماد رکھو۔۔۔ اپنے آپ کو کسی سے کم خیال کرنا درحقیقت نا شکری ہے۔۔۔ بس اس نا شکری سے بچو۔ جب تمھارا گمان اچھا ہو جائے گا تو دیکھو گے کے تم ایک اچھے انسان ہو جو رب کی رحمت کے سائے تلے ہے مگر ادراک نہیں کر پا رہا۔۔۔ سو شکر کی عادت اپنائو اور کامیاب ہو جائو۔۔
میرے بھائی میری آج کی تحریر تمھارے نام ہے۔۔ اور امید ہے کہ تم اپنے اس بھائی کی اس تحریر کو پڑھو گے اور اپنے حصے کی چیز لے کر اپنی زندگی کو ایک نئے طریقے سے دیکھنے اور سمجھنے کی کو شش کرو گے۔۔۔
چھوٹے بھائی۔۔ ہم انسان زمان اور مکان کے قیدی ہیں۔ یہ دنیا اور اس کی زندگی ایک امتحان ہے جس میں کامیابی پر اللہ کی عنایات اور ناکامی پر حساب اور سزا ہے۔
زمان یعنی وقت اور مکان یعنی مادی دنیا جسے آپ فیزیکل ورلڈ کہتے ہیں۔ ہم ایک نظام شمسی میں رہتے ہیں۔۔ یہان ایک سورج ہے اور 9 سیارے ہیں۔۔ ہماری زمین سورج کے گرد ایک چکر 365 دنوں میں لگاتی ہے۔۔ یہ 365 دن ہمیں وقت کا تعین کرنے میں مدد دیتے ہیں۔۔۔ یہ جارجین طریقہ ہے وقت ناپنے کا۔ جو اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک استعمال کر رہے ہیں۔۔ ہم مسلمان اپنے سال اور مہینوں کا تعین چاند کے مطابق کرتے ہیں۔
زمین سورج کے گرد چکر لگاتی ہے۔ یہ چکر وہ سپین یا گھومتے ہوئے کرتی ہے یعنی اس کا ایک حصہ سورج کی جانب ہوتا ہے اور دوسرا مخالف سمت اور پھر مخالف سمت والا حصہ سورج کے سامنے آ جاتا ہے اور سامنے والا حصہ پچھلی جانب چلا جاتا ہے۔ یہ پراسس 24 گھنٹوں میں پورا ہوتا ہے اور دن اور رات سورج کے سامنے ہونے یا مخالف سمت ہونے کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں۔
فزکس میں وقت کی تعریف یوں کی جاتی ہے۔۔۔ دو واقعات کے درمیانی فاصلے کو وقت کہتے ہیں۔۔
زمین پر ایک سال 365 دنوں کا ہوتا ہے مگر یہ ایک سال مشتری میں 88دنوں کا ہوتا ہے جبکہ پلوٹو میں ایک سال ہمارے 246 سالوں کے برابر ہوتا ہے یعنی اس کا ایک دن زمین کے تقریباً ساڈھے چھ دنوں کے برابر ہوتا ہے
چھوٹے بھائی زمان و مکان کا ہم سے یہ تعلق زندگی کے لئے بہت ضروری ہے کیونکہ اس کی وجہ سے ہمارے لئے ارتقا اور ترقی کے مراحل پیدا ہوتے ہیں۔
زمان اور مکان کا ہم سے یہ تعلق سفر زندگی کے جاری رہنے کا باعث بنتا ہے۔۔یہ اسی کی بدولت حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے۔۔۔ غم ختم ہو جاتے ہیں۔۔ ہم اپنے سامنے اپنے بچوں کو بڑھتا ہوا دیکھتے ہیں۔۔۔ اور ان کی خوشیوں سے محزوز ہوتے ہیں۔ بچپن سے جوانی آتی ہے، پھر بڑھاپا اور پھر اختتام۔۔
جہان یہ زمان و مکان کی قید ایک امتحان ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ رب العزت کی ایک ایسی عطا ہے جس کی وجہ سے تبدیلیاں آتی ہیں۔۔ شعور اور تجربات میں اضافہ ہوتا ہے۔۔ جو زندگی اور مقاصد زندگی سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ جیسا کہ رب ذوالجلال والاکرام کا قول ہے۔
بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے بدل بدل کے آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں
(آل عمران،آیت ۱۹۰))
میرے بھائی اللہ نے تمام چیزوں کے جوڑے اور متضاد بنائے ہیں۔۔۔ دن کے ساتھ رات ہے، خوشی کے ساتھ غمی ہے، بہار کے ساتھ خزان ہے، اندھیرے کے ساتھ اجالا ہے، ہار کے ساتھ جیت بھی ہے، وغیرہ وغیرہ۔۔۔
تم غمگین کیون رہتے ہو؟
شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ تم یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ زندگی کیا ہے۔۔۔ یا تم نے کبھی اس پر غور کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔۔۔ یا شاید تم نے زمان و مکان کے ایک نقطے پر۔۔۔خودکو روک رکھا ہے اور تم آگے نہیں بڑھ پا رہے۔
سنو اور غور سے سنو۔۔۔ ایک مقام پر رک جانا خلافِ فطرت ہے۔۔۔ کیونکہ فطرت تبدیلی یا ارتقا کا درس دیتی ہے جبکہ رک جانا موت کی نشانی ہے۔ برے وقت سے اسباق حاصل کئے جاتے ہیں نہ کہ اس میں رہ کر حال اور مستقبل کو تاریک کیا جاتا ہے۔
اللہ رب العزت نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ اسے نفس، جسم اور روح کا مرکب بنایا ہے۔ نفس کا فیضان خودی ہے یعنی اپنی ذات کا احساس اور اہمیت کا ادراک ہے۔ نفس انسانی پر اس کے تھاٹ پراسس یا سوچ کے اثرات ہوتے ہیں۔
میرے بھائی۔۔۔ اللہ رب العزت رحمٰن اور رحیم ہے۔ اسی لئے دنیا میں جتنی بھی جسمانی، روحانی اور نفسیاتی بیماریان ہیں۔۔۔ سب کا علاج اور دوا بھی موجود ہے۔۔۔
نفسیات دانوں کا کہنا تھا کہ لا شعور ایک سٹور ہاؤس ہے جہان ہم اپنی منفی سوچوں کو دھکیلتے ہیں۔۔ سوچ بھی طاقت یا انرجی ہوتی ہے۔ جب ہم یہ منفی انرجی نکلنے نہیں دیتے اور اس کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں تو ایک وقت آتا ہے کہ لا شعور اس منفی انرجی سے بھر جاتا ہے۔۔۔ پھر یہ انرجی یا طاقت ہمیں کنٹرول کرتی۔۔ وہ باہر نکلے کی کوشش کرتی ہے اور ہم بے بس ہو کر مختلف نفساتی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔
منفی سوچون کی وجہ کچھ بھی ہو سکتی ہے۔۔ کوئی ڈر،خوف ،واقعہ،نفرت، تعصب یا کچھ اور۔ ہم میں سے اکثر اپنے خوف سے ڈرتے ہیں۔ نفس حقیقت سے بھاگنا چاہتا ہے۔۔۔ اس لئے ہم کوشش کرتے ہیں کہ ہمارا۔۔اپنے خوف سے کبھی ٹاکرا نہ ہو۔
اور یہ ہی بات ہمارے لئے الجھنوں کا باعث بنتی ہے۔ پھر ہمارا معاشرہ حرکت میں آتا ہے اور جان بھوج کر ہمیں ہمارے خوف کا آئینہ دیکھاتا ہے جو لاشعور میں مزید منفی انرجی کا سبب بنتا ہے۔
کیا اس خوف کا علاج ہے؟
ہاں بالکل ہے۔۔۔ آپ جن سوچوں اور خوف سے بھاگنا چاہتے ہیں ان کا ہیڈ آن سامنا کرین۔ جب تک آپ خوف کا سامنا کرنے سے ڈریں گے۔۔۔ خوف بچے دے گا۔ لیکن جیسے ہی آپ اس کا سامنا کرین گے۔۔۔ خوف اپنا اثر کھونے لگ جائے گا اور اپنی موت آپ مر جائے گا۔
آپ یہ سمجھ اور مان بیھٹے ہیں کہ آپ تعلیم میں بہت کمزور ہیں اور آپ میں خود اعتمادی نام کی چیز نہیں۔۔۔ اسی وجہ سے آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ ایک ناکام زندگی گزار رہے ہیں اور کامیابی کی کوئی امید نہیں۔
پیارے بھائی! آپ میں اعتماد کا نہ ہونا صرف اس وجہ سے ہے کہ آپ نے کبھی خود پر اعتماد کرنا ہی نہیں چاہا۔ آپ نے ناکامیون کا تو اثر لیا لیکن کبھی وجوہات پر غور نہیں کیا۔ آہستہ آہستہ آپ خود سے ہار گئے۔۔۔ آپ بیمار رہنے لگے، اور زندگی سے کترانا شروع کر دیا۔
ناکامی کا خوف اچھی چیز ہے، لیکن صرف تب جب اس سے بچنے کے لئے دماغ استعمال کیا جائے۔ آپ نے پہلا حصہ اپنایا مگر دوسرے پر غور نہیں کیا اور یوں احساسِ عدم اعتماد پیدا ہوا جس کا اثر آپ کی ذات پر حاوی ہونے لگا اور اس کے باعث آپ میں احساس لا تعلقی پیدا ہوا۔۔۔ آپ ڈپریشن اور انگزائٹی (anxiety) کا شکار ہونے لگے۔ آپ کو اپنے عزیزون سے متعلق انسکیوڑتی پیدا ہونا شروع ہو گئی۔ آپ کو یہ ڈر لگنے لگا کہ اگر یہ آپ سے دور ہو گئے تو آپ اس دنیا میں کیسے جیئیں گے۔۔۔ کیونکہ ان کی موجودگی میں آپ خود کو سیکیور سمجھتے ہیں۔
دوست ہم مسلمان ہیں۔ کیا آپ نے کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کیا؟
جن حالات سے اللہ کے محبوب، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم گزرے اور جیسے سرکار نے حالات کا مقابلہ کیا وہ تمام انسانیت کے لئے مشعل راہ ہے۔ آپ طائف کا واقعہ ہی دیکھ لین۔۔۔ آپ کو احساس ہو گا کہ سیرت کا ایک پیغام اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے تمام سختیوں کا مقابلہ کرنا ہے۔۔
میرے بھائی تم تو چند ناکامیون سے گھبرا گئے اور خود پر ایک خول چڑھا لیا۔۔۔ تم ماشاء اللہ مسلم ہو۔۔۔ سیرت کا مطالعہ کرو اور اپنے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سیکھو۔۔
مشکلات اور ناکامیان تو کامیابی کی نوید ہوتی ہیں۔ سختی آتی ہے تو ہی نرمی آتی ہے۔ سختی کی بھٹی سے گزرا ہوا انسان ہی کامیابی اور عظمت پاتا ہے۔۔۔
ہاں مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے
(سورۃ الم نشرح)
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ حالات کیسے بدل سکتے ہیں؟
سنو اور غور سے سنو کہ آپ نے میٹرک میں فزکس پڑھی ہو گی ایک اصول جو لاء آف کنزرویشن آف انرجی کہلاتا ہے۔۔ جو کہتا ہے کہ انرجی کو ایک قسم سے دوسری قسم میں تبدیل کیا جا سکتا ہے مگر اسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔
آپ کے لا شعور میں منفی انرجی جمع ہے۔ اس انرجی کو مثبت انداز میں نکالو۔۔۔ مثلاً جب میں فرسٹریٹ ہوتا ہوں تو لکھنا شروع کر دیتا ہوں۔۔۔ جو دل میں آئے لکھتا ہوں پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ انرجی قلم کے ذریعے کاغذ پر منتقل ہو جاتی ہے اور مجھ سے نکل کر تحریر بن جاتی ہے۔ اس کا ایک مثبت اثر یہ بھی ہوتا ہے کہ میری تحریروں میں پختگی آتی ہے۔
خود میں مطالعے کی عادت ڈالو۔۔۔ خصوصاً سیرت کا مطالع کرو۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات مبارکہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ آپ کی حیات مبارکہ کا مطالعہ جہان ہم میں عشق نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پیدا کرتا ہے وہاں حالات و واقعات کا مثبت انداز میں مقابلہ کرنے کا حوصلہ بھی دیتا ہے۔
تیسری بات اپنی ان سیکیوڑٹیز سے چھپنے کی بجائے ان کا مقابلہ کرو۔۔ آپ آدم علیہ سلام کے بیٹے ہو جن کو اللہ رب العزت نے خلافتِ ارضی عطا فرمائی۔ اللہ نے آپ کو نارمل پیدا کیا اور سوچنے والا دماغ عطا کیا۔ آپ خود احتسابی کرو کہ کہاں آپ سے کمی رہ گئی ہے۔ ان عنایات پر غور کرو جن سے رب العزت نے آپ کو نوازا ہے۔ ان چیزون پر غور مت کرو جو آپ کے اختیار میں نہیں۔۔۔ محنت کرو۔۔۔ اپنی کتابوں میں دلچسپی لو۔۔ اور اپنے لئے اونچے مقاصد رکھو۔۔ کسی کھیل میں حصہ لو، صبح کی سیر کو معمول بناؤ۔۔۔
میرے بھائی انسان ایک حد تک دوسرے کی مدد کر سکتا ہے۔۔۔ بعض اوقات اپنے چاہتے ہوئے بھی آپ کی مدد نہیں کر سکتے۔۔ صرف ایک ذات ہے جو ہر حال میں آپ کی مدد کرتی ہے۔۔ وہ ذات ہے اللہ رب العزت کی کیونکہ وہ آپ کا خالق بھی ہے، مالک بھی ہے اور رب بھی۔۔۔ اپنے مثائل اس کے سامنے بیان کرو اور اس سے مدد مانگو۔ جس دن آپ نے اس سے تعلق جوڑ لیا تو یقین جانو کبھی کوئی خوف یا وسوسہ آپ کو خراب نہیں کر سکے گا۔
اس کے علاوہ غور و فکر کی عادت ڈالو اور ہر چیز کا مثبت رخ دیکھو۔۔۔ دیکھنے کا انداز بھی چیزون کی حقیقت تبدیل کر دیتا ہے۔
اللہ تمھیں خوش رکھے۔ اپنی عزت کرو اور اعتماد رکھو۔۔۔ اپنے آپ کو کسی سے کم خیال کرنا درحقیقت نا شکری ہے۔۔۔ بس اس نا شکری سے بچو۔ جب تمھارا گمان اچھا ہو جائے گا تو دیکھو گے کے تم ایک اچھے انسان ہو جو رب کی رحمت کے سائے تلے ہے مگر ادراک نہیں کر پا رہا۔۔۔ سو شکر کی عادت اپنائو اور کامیاب ہو جائو۔۔