جاسم محمد
محفلین
اپنے بچوں کو قتل نہ کیجیے!
کامران امین پير 8 اپريل 2019
گریڈنگ سسٹم بہت سے مسائل کی جڑ ہے اور اب دنیا بھر میں یہ بحث زور پکڑ رہی ہے کہ اسے کیسے ختم کیا جائے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)
کتنا عجیب عنوان ہے ناں؟ بھلا کوئی اپنے بچوں کو بھی قتل کرتا ہے؟ یقین مانیے کہ جانے انجانے میں ہی سہی، ہم میں سے اکثر لوگ اس جرم میں ملوث ہیں۔ ہم نہ صرف اپنے بچوں کو اور چھوٹوں کو تعلیم کے نام پر ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، ان کی خدا داد صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے بجائے دبا دیتے ہیں بلکہ انہیں موت کے دروازے پر بھی چھوڑ آتے ہیں۔ یہ کام ہمارا معاشرہ، قریبی رشتہ دار، دوست احباب، بڑے بہن بھائی اور والدین مل کر کرتے ہیں؛ اور یہ کام سب سے زیادہ بہار کے موسم میں انجام دیا جاتا ہے، یعنی جب اسکولوں میں تعلیمی سال کے نتائج کا اعلان کیا جاتا ہے۔
آج کل پھر نتائج کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ کچھ بچے اپنی جماعت میں ٹاپ کریں گے، پوزیشنیں لیں گے۔ اکثر پاس ہوں گے اور پاس ہونے والوں کی بھی تقسیم ہوگی۔ کچھ ہائر گریڈز میں پاس ہوں گے اور کچھ ذرا کم درجے میں… اور کچھ فیل بھی ہوں گے۔
یہ ہمارا گریڈنگ سسٹم بہت سارے مسائل کا پیش خیمہ ہے اور اسی وجہ سے اب دنیا بھر میں اس بات سے متعلق بحث زور پکڑ رہی ہے کہ اسے کیسے ختم کیا جائے۔ کچھ ممالک مثلاً نیدرلینڈ اور فرانس وغیرہ میں کامیابی سے کچھ تجربات کیے جاچکے ہیں اور بہت اچھے نتائج بھی دے رہے ہیں۔ ہمارا گریڈنگ سسٹم نہ صرف طالب علم کی شخصیت کو کچل کر رکھ دیتا ہے، عزت نفس مجروح کرتا ہے بلکہ یہ تخلیقی صلاحیتوں کا بھی دشمن ہے اور طلبہ کو مختلف نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کرکے خود کشی تک پہنچا کر دم لیتا ہے۔
افسوس یہ ہے کہ ہمارے ہاں تعلیمی اداروں میں اس طرح کے سروے بھی نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن پھر بھی بے شمار ایسی مثالیں بکھری ہیں جہاں آپ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے کہ ہمیشہ کلاس میں ٹاپ کرنے والے اپنی عملی زندگی میں بری طرح ناکام ہوئے۔
اسی سے ملتے جلتے نتائج دنیا بھر میں ہونے والے سروے بھی مہیا کرتے ہیں۔ مثلاً فیس بک کا بانی، یا مائیکروسافٹ کا سربراہ، یا ایپل کا بانی اور یہاں تک کہ خود آئن اسٹائن کا تعلیمی ریکارڈ ہرگز کلاس ٹاپر یا پوزیشن ہولڈر وغیرہ کا نہ تھا لیکن یہ لوگ اپنے اپنے میدانوں کے سرخیل ٹھہرے۔
نظام تبدیل کرنا میرے اور آپ کے اختیار میں ہر گز نہیں لیکن ہمارا معاشرہ اگر اجتماعی کوشش کرے (اور معاشرہ نہ سہی طالب علم کے دوست احباب یا والدین اگر کوشش کریں) تو اس گریڈنگ سسٹم سے بچے پر پڑنے والے نفسیاتی اثرات کو خاصی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ اسی بابت میرے ذہن میں جو چیزیں آرہی ہیں، میں انہیں تحریر کرتا ہوں اور مزید آپ جو محسوس کریں وہ لکھیے تاکہ سب کا بھلا ہو۔
سب سے پہلے ان طلبا کےلیے کچھ باتیں جنہوں نے ابھی اپنی تعلیم کا آغاز کیا ہے اور ابھی ابتدائی جماعتوں میں ہیں۔ یہ وہ نوخیز کلیاں ہیں جنہیں چاہیں تو والدین اور معاشرہ اپنی کوششوں سے اپنے شعبے کا آئن اسٹائن بنادیں یا چاہیں تو طعنوں کی موت مار دیں۔ یہ آپ کی مرضی ہے۔ سب سے پہلے تو یہ بات ذہن نشین رکھیے کہ ہر بچے کے نصیب میں اسکول یا کلاس میں ٹاپ کرنا نہیں ہوتا۔ وہ کوئی ایک ہی کرے گا۔ اگر آپ کا بچہ کچھ پیچھے رہ گیا ہے تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وہ نالائق ہے یا کسی سے کم ہے۔ کوشش کیجیے کہ اپنی بساط کی حد تک بچے کی تعلیمی کامیابی کی خوشی منائیں۔ بچا گھر لوٹے تو اسے ڈھیر سارا پیار دیجیے، شاباش دیجیے اور اس کےلیے کوئی تحفہ لے آئیے۔ اگر آپ زیادہ کچھ نہیں کرسکتے تو کم از کم اس کی تعریف تو کر ہی سکتے ہیں؛ اور یہ لازمی کیجیے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کی ذرا سی تعریف بچے کےلیے آئندہ مزید کامیابیوں کے دروازے کھول دے۔
دوسری اہم ترین بات یہ ہے کہ اپنے بچے کا کسی دوسرے بچے سے موازنہ ہر گز، ہر گز نہ کیجیے… کبھی نہ کیجیے۔ بچے بہت حساس ہوتے ہیں، اس بات کا بہت سخت اور بہت جلدی اثر لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں سب سے گھٹیا کام یہی ہوتا ہے کہ ہم بچے کو فوراً طعنے دینا شروع کردیتے ہیں تمہارے فلاں چچا کی بیٹی نے اتنے نمبر لیے تم نے کم کیوں لیے؟ تم سے تو فلاں کے بچے اچھے ہیں۔ دیکھو پہننے کے کپڑے نہیں لیکن رزلٹ دیکھو کتنا اچھا رہا! پھر اوپر سے چاچے، تائے، مامے، سارے مذاق اڑانے آجاتے ہیں کہ دیکھو فلاں کی بیٹی سے تمہارے نمبر کم ہیں، تم نالائق ہو۔
ایسے جملے معصوم ذہن پر ہتھوڑوں کی طرح بجتے ہیں۔ آپ نے پہلے قدم پر ہی اپنے بچے کو احساس کمتری کا شکار کردیا ہے۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ فلاں کے بچے اور آپ کے بچے کی شخصیت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کبھی خود پر بھی غور کیجیے کہ فلاں بچے کا باپ کروڑوں کا مالک ہے تو آپ نے کتنا کما لیا ہے؟ کیا اپنی محرومیوں کی سزا آپ بچوں پر جبر کرکے دیں گے؟
اسی بابت تیسری اہم ترین بات: اپنے بچے کی مدد کیجیے۔ نتائج والے دن گزر جانے دیجیے۔ اگر نتیجہ بہت برا آیا ہے تو وقتی طور پر بچے کی حوصلہ افزائی کیجیے۔ بعد میں کسی وقت آرام و سکون سے بیٹھ کر بچے سے گفتگو کیجیے۔ ہوسکتا ہے اسے اسکول میں کوئی مسئلہ ہو۔ ہوسکتا ہے استاد اس سے خار کھاتا ہو۔ ہوسکتا ہے بچے اسے تنگ کرتے ہوں۔ بچے کے مسائل سمجھنے کی کوشش کیجیے اور انہیں حل کرنے میں اس کی مدد کیجیے، اسے ماریئے نہیں۔
چوتھی بات یہ کہ اگر کہیں ڈانٹنا ضروری بھی ہو تو اپنے بچے کو سب کے سامنے تماشا بنانے کے بجائے بہتر ہے اکیلے ڈانٹیے۔ کم از کم دوستوں کے سامنے تو بچے کی عزت نفس مجروح نہ کیجیے، اس کا دل بڑا کیجیے۔
پانچویں بات یہ کہ بچے کی دلچسپی کے امور جاننے کی کوشش کرتے رہیے۔ بہتر یہی ہے کہ بچہ جس چیز میں دلچسپی لے، اسی طرف جانے دیجیے لیکن اگر آپ اسے کسی مخصوص سمت موڑنا بھی چاہتے ہیں تو اس کےلیے مار پیٹ، غصے اور جبر کے بجائے غیر محسوس انداز میں سمجھانے کا طریقہ اختیار کیجیے۔ مثلاً آپ بچے کو سائنسدان بنانا چاہتے ہیں لیکن اس کا اس طرف رحجان نہیں، تو بہترین حل یہ ہے کہ اسے مشہور سائنس دانوں کی کامیابی کی داستانیں سنائیے۔ سائنس کی حیرت انگیز دریافتوں اور ایجادات کی ویڈیوز دکھائیے۔ چھوٹے بچے ان چیزوں کا بہت اثرلیتے ہیں اور امید ہے جلدی وہ اپنا رحجان اسی طرف بنا لیں گے؛ اور جب ان کا اپنا شوق پیدا ہوجائے گا تو وہ زیادہ دلچسپی اور محنت سے اس کام کو سرانجام دیں گے۔
اسی طرح بچے جو چھوٹے موٹے تخلیقی کام کرتے رہتے ہیں، چاہے وہ کتنے ہی بھدے اور برے کیوں نہ ہوں (جیسے کہ ڈرائنگ بنا لی، مٹی سے کچھ بنا لیا وغیرہ) ہر طور ان کی حوصلہ افزائی کیجیے۔
اب کچھ ایسے رویوں کا ذکر جو بچوں کو باغی بنا دیتے ہیں۔ تحریر کا یہ حصہ محترمہ صائمہ رمضان صاحبہ کی تحریر سے مستعار لیا گیا ہے۔
ہمارے ہاں بچوں کو ڈسپلن کے نام پر سخت قسم کی ذہنی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان کے ذہن میں بچپن ہی سے سزا کا خوف ڈال دیا جاتا ہے اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ بچے بغاوت کرنے پر تُل جاتے ہیں۔ جو بات تحمل کے ساتھ بیٹھ کر سمجھائی جاسکتی ہو، اس کا ڈھنڈورا پیٹ کر بچے کو ’’گناہ‘‘ کا شدید احساس دلانے اور اُس کے ہم عمر بچوں میں اس کی رُسوائی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ بعض اوقات احساسِ گناہ سے بچے کی شخصیت کے اندر ایک باصلاحیت کردار مُرجھانا شروع ہوجاتا ہے جو آہستہ آہستہ ایک ناکارہ فرد کو جنم دیتا ہے۔ ایسے افراد معاشرے پر بوجھ اور نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔
اگر بچوں کو بار بار ان کی غلطیاں جتلا کر مسلسل ان کی ننھی شخصیت کی رُسوائی جاری رکھی جائے تو یہ خاندان بھر کےلیے شدید پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔ ایک انسان اپنے معاملات میں تو وکیل بن کر ہزاروں دلائل اکٹھے کرکے خود کو سچا ثابت کرتا ہے لیکن وہی شخص دوسروں کےلیے ایک ظالم جج کا روپ دھار کر سخت فیصلے صادر کرتا ہے۔ اگر والدین، عزیز و اقارب بچوں کے ساتھ قدم قدم پر اعتماد کے ساتھ چلیں تو بہت سی مثبت تبدیلیاں دیکھنے کو مل سکتی ہیں، ورنہ نادان بچے سے غلطی تو ہو سکتی ہے لیکن اُسے سنبھالنے کےلیے بھی عقل و تدبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسان سے غلطیاں سرزد ہوجاتی ہیں، اگر ایسا نہ ہو تو وہ فرشتے کہلائیں لیکن خدا کی طرف سے توبہ کا دروازہ کھلا رہتا ہے۔ اگر شفقت و اُنس کے ساتھ بچوں کو سمجھایا جائے تو وہ راہِ راست پر آسکتے ہیں؛ اور اگر خدا ان کو معاف کر سکتا ہے تو پھر یہ لو گ کون سے جھوٹے خدا ہیں جو ہر وقت کوستے رہتے ہیں۔
یہ تو تھی چھوٹے بچوں کے بارے میں کچھ باتیں۔ ایسے بچے جو بڑی جماعتوں میں جاچکے ہیں، ان کے ساتھ کیا کیا جائے؟ اس کےلیے اس سلسلے کی اگلی قسط جلد ہی پیش کی جائے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کامران امین پير 8 اپريل 2019
گریڈنگ سسٹم بہت سے مسائل کی جڑ ہے اور اب دنیا بھر میں یہ بحث زور پکڑ رہی ہے کہ اسے کیسے ختم کیا جائے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)
کتنا عجیب عنوان ہے ناں؟ بھلا کوئی اپنے بچوں کو بھی قتل کرتا ہے؟ یقین مانیے کہ جانے انجانے میں ہی سہی، ہم میں سے اکثر لوگ اس جرم میں ملوث ہیں۔ ہم نہ صرف اپنے بچوں کو اور چھوٹوں کو تعلیم کے نام پر ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، ان کی خدا داد صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے بجائے دبا دیتے ہیں بلکہ انہیں موت کے دروازے پر بھی چھوڑ آتے ہیں۔ یہ کام ہمارا معاشرہ، قریبی رشتہ دار، دوست احباب، بڑے بہن بھائی اور والدین مل کر کرتے ہیں؛ اور یہ کام سب سے زیادہ بہار کے موسم میں انجام دیا جاتا ہے، یعنی جب اسکولوں میں تعلیمی سال کے نتائج کا اعلان کیا جاتا ہے۔
آج کل پھر نتائج کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ کچھ بچے اپنی جماعت میں ٹاپ کریں گے، پوزیشنیں لیں گے۔ اکثر پاس ہوں گے اور پاس ہونے والوں کی بھی تقسیم ہوگی۔ کچھ ہائر گریڈز میں پاس ہوں گے اور کچھ ذرا کم درجے میں… اور کچھ فیل بھی ہوں گے۔
یہ ہمارا گریڈنگ سسٹم بہت سارے مسائل کا پیش خیمہ ہے اور اسی وجہ سے اب دنیا بھر میں اس بات سے متعلق بحث زور پکڑ رہی ہے کہ اسے کیسے ختم کیا جائے۔ کچھ ممالک مثلاً نیدرلینڈ اور فرانس وغیرہ میں کامیابی سے کچھ تجربات کیے جاچکے ہیں اور بہت اچھے نتائج بھی دے رہے ہیں۔ ہمارا گریڈنگ سسٹم نہ صرف طالب علم کی شخصیت کو کچل کر رکھ دیتا ہے، عزت نفس مجروح کرتا ہے بلکہ یہ تخلیقی صلاحیتوں کا بھی دشمن ہے اور طلبہ کو مختلف نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا کرکے خود کشی تک پہنچا کر دم لیتا ہے۔
افسوس یہ ہے کہ ہمارے ہاں تعلیمی اداروں میں اس طرح کے سروے بھی نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن پھر بھی بے شمار ایسی مثالیں بکھری ہیں جہاں آپ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے کہ ہمیشہ کلاس میں ٹاپ کرنے والے اپنی عملی زندگی میں بری طرح ناکام ہوئے۔
اسی سے ملتے جلتے نتائج دنیا بھر میں ہونے والے سروے بھی مہیا کرتے ہیں۔ مثلاً فیس بک کا بانی، یا مائیکروسافٹ کا سربراہ، یا ایپل کا بانی اور یہاں تک کہ خود آئن اسٹائن کا تعلیمی ریکارڈ ہرگز کلاس ٹاپر یا پوزیشن ہولڈر وغیرہ کا نہ تھا لیکن یہ لوگ اپنے اپنے میدانوں کے سرخیل ٹھہرے۔
نظام تبدیل کرنا میرے اور آپ کے اختیار میں ہر گز نہیں لیکن ہمارا معاشرہ اگر اجتماعی کوشش کرے (اور معاشرہ نہ سہی طالب علم کے دوست احباب یا والدین اگر کوشش کریں) تو اس گریڈنگ سسٹم سے بچے پر پڑنے والے نفسیاتی اثرات کو خاصی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ اسی بابت میرے ذہن میں جو چیزیں آرہی ہیں، میں انہیں تحریر کرتا ہوں اور مزید آپ جو محسوس کریں وہ لکھیے تاکہ سب کا بھلا ہو۔
سب سے پہلے ان طلبا کےلیے کچھ باتیں جنہوں نے ابھی اپنی تعلیم کا آغاز کیا ہے اور ابھی ابتدائی جماعتوں میں ہیں۔ یہ وہ نوخیز کلیاں ہیں جنہیں چاہیں تو والدین اور معاشرہ اپنی کوششوں سے اپنے شعبے کا آئن اسٹائن بنادیں یا چاہیں تو طعنوں کی موت مار دیں۔ یہ آپ کی مرضی ہے۔ سب سے پہلے تو یہ بات ذہن نشین رکھیے کہ ہر بچے کے نصیب میں اسکول یا کلاس میں ٹاپ کرنا نہیں ہوتا۔ وہ کوئی ایک ہی کرے گا۔ اگر آپ کا بچہ کچھ پیچھے رہ گیا ہے تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وہ نالائق ہے یا کسی سے کم ہے۔ کوشش کیجیے کہ اپنی بساط کی حد تک بچے کی تعلیمی کامیابی کی خوشی منائیں۔ بچا گھر لوٹے تو اسے ڈھیر سارا پیار دیجیے، شاباش دیجیے اور اس کےلیے کوئی تحفہ لے آئیے۔ اگر آپ زیادہ کچھ نہیں کرسکتے تو کم از کم اس کی تعریف تو کر ہی سکتے ہیں؛ اور یہ لازمی کیجیے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کی ذرا سی تعریف بچے کےلیے آئندہ مزید کامیابیوں کے دروازے کھول دے۔
دوسری اہم ترین بات یہ ہے کہ اپنے بچے کا کسی دوسرے بچے سے موازنہ ہر گز، ہر گز نہ کیجیے… کبھی نہ کیجیے۔ بچے بہت حساس ہوتے ہیں، اس بات کا بہت سخت اور بہت جلدی اثر لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں سب سے گھٹیا کام یہی ہوتا ہے کہ ہم بچے کو فوراً طعنے دینا شروع کردیتے ہیں تمہارے فلاں چچا کی بیٹی نے اتنے نمبر لیے تم نے کم کیوں لیے؟ تم سے تو فلاں کے بچے اچھے ہیں۔ دیکھو پہننے کے کپڑے نہیں لیکن رزلٹ دیکھو کتنا اچھا رہا! پھر اوپر سے چاچے، تائے، مامے، سارے مذاق اڑانے آجاتے ہیں کہ دیکھو فلاں کی بیٹی سے تمہارے نمبر کم ہیں، تم نالائق ہو۔
ایسے جملے معصوم ذہن پر ہتھوڑوں کی طرح بجتے ہیں۔ آپ نے پہلے قدم پر ہی اپنے بچے کو احساس کمتری کا شکار کردیا ہے۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ فلاں کے بچے اور آپ کے بچے کی شخصیت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کبھی خود پر بھی غور کیجیے کہ فلاں بچے کا باپ کروڑوں کا مالک ہے تو آپ نے کتنا کما لیا ہے؟ کیا اپنی محرومیوں کی سزا آپ بچوں پر جبر کرکے دیں گے؟
اسی بابت تیسری اہم ترین بات: اپنے بچے کی مدد کیجیے۔ نتائج والے دن گزر جانے دیجیے۔ اگر نتیجہ بہت برا آیا ہے تو وقتی طور پر بچے کی حوصلہ افزائی کیجیے۔ بعد میں کسی وقت آرام و سکون سے بیٹھ کر بچے سے گفتگو کیجیے۔ ہوسکتا ہے اسے اسکول میں کوئی مسئلہ ہو۔ ہوسکتا ہے استاد اس سے خار کھاتا ہو۔ ہوسکتا ہے بچے اسے تنگ کرتے ہوں۔ بچے کے مسائل سمجھنے کی کوشش کیجیے اور انہیں حل کرنے میں اس کی مدد کیجیے، اسے ماریئے نہیں۔
چوتھی بات یہ کہ اگر کہیں ڈانٹنا ضروری بھی ہو تو اپنے بچے کو سب کے سامنے تماشا بنانے کے بجائے بہتر ہے اکیلے ڈانٹیے۔ کم از کم دوستوں کے سامنے تو بچے کی عزت نفس مجروح نہ کیجیے، اس کا دل بڑا کیجیے۔
پانچویں بات یہ کہ بچے کی دلچسپی کے امور جاننے کی کوشش کرتے رہیے۔ بہتر یہی ہے کہ بچہ جس چیز میں دلچسپی لے، اسی طرف جانے دیجیے لیکن اگر آپ اسے کسی مخصوص سمت موڑنا بھی چاہتے ہیں تو اس کےلیے مار پیٹ، غصے اور جبر کے بجائے غیر محسوس انداز میں سمجھانے کا طریقہ اختیار کیجیے۔ مثلاً آپ بچے کو سائنسدان بنانا چاہتے ہیں لیکن اس کا اس طرف رحجان نہیں، تو بہترین حل یہ ہے کہ اسے مشہور سائنس دانوں کی کامیابی کی داستانیں سنائیے۔ سائنس کی حیرت انگیز دریافتوں اور ایجادات کی ویڈیوز دکھائیے۔ چھوٹے بچے ان چیزوں کا بہت اثرلیتے ہیں اور امید ہے جلدی وہ اپنا رحجان اسی طرف بنا لیں گے؛ اور جب ان کا اپنا شوق پیدا ہوجائے گا تو وہ زیادہ دلچسپی اور محنت سے اس کام کو سرانجام دیں گے۔
اسی طرح بچے جو چھوٹے موٹے تخلیقی کام کرتے رہتے ہیں، چاہے وہ کتنے ہی بھدے اور برے کیوں نہ ہوں (جیسے کہ ڈرائنگ بنا لی، مٹی سے کچھ بنا لیا وغیرہ) ہر طور ان کی حوصلہ افزائی کیجیے۔
اب کچھ ایسے رویوں کا ذکر جو بچوں کو باغی بنا دیتے ہیں۔ تحریر کا یہ حصہ محترمہ صائمہ رمضان صاحبہ کی تحریر سے مستعار لیا گیا ہے۔
ہمارے ہاں بچوں کو ڈسپلن کے نام پر سخت قسم کی ذہنی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان کے ذہن میں بچپن ہی سے سزا کا خوف ڈال دیا جاتا ہے اور پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ بچے بغاوت کرنے پر تُل جاتے ہیں۔ جو بات تحمل کے ساتھ بیٹھ کر سمجھائی جاسکتی ہو، اس کا ڈھنڈورا پیٹ کر بچے کو ’’گناہ‘‘ کا شدید احساس دلانے اور اُس کے ہم عمر بچوں میں اس کی رُسوائی کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ بعض اوقات احساسِ گناہ سے بچے کی شخصیت کے اندر ایک باصلاحیت کردار مُرجھانا شروع ہوجاتا ہے جو آہستہ آہستہ ایک ناکارہ فرد کو جنم دیتا ہے۔ ایسے افراد معاشرے پر بوجھ اور نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔
اگر بچوں کو بار بار ان کی غلطیاں جتلا کر مسلسل ان کی ننھی شخصیت کی رُسوائی جاری رکھی جائے تو یہ خاندان بھر کےلیے شدید پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔ ایک انسان اپنے معاملات میں تو وکیل بن کر ہزاروں دلائل اکٹھے کرکے خود کو سچا ثابت کرتا ہے لیکن وہی شخص دوسروں کےلیے ایک ظالم جج کا روپ دھار کر سخت فیصلے صادر کرتا ہے۔ اگر والدین، عزیز و اقارب بچوں کے ساتھ قدم قدم پر اعتماد کے ساتھ چلیں تو بہت سی مثبت تبدیلیاں دیکھنے کو مل سکتی ہیں، ورنہ نادان بچے سے غلطی تو ہو سکتی ہے لیکن اُسے سنبھالنے کےلیے بھی عقل و تدبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسان سے غلطیاں سرزد ہوجاتی ہیں، اگر ایسا نہ ہو تو وہ فرشتے کہلائیں لیکن خدا کی طرف سے توبہ کا دروازہ کھلا رہتا ہے۔ اگر شفقت و اُنس کے ساتھ بچوں کو سمجھایا جائے تو وہ راہِ راست پر آسکتے ہیں؛ اور اگر خدا ان کو معاف کر سکتا ہے تو پھر یہ لو گ کون سے جھوٹے خدا ہیں جو ہر وقت کوستے رہتے ہیں۔
یہ تو تھی چھوٹے بچوں کے بارے میں کچھ باتیں۔ ایسے بچے جو بڑی جماعتوں میں جاچکے ہیں، ان کے ساتھ کیا کیا جائے؟ اس کےلیے اس سلسلے کی اگلی قسط جلد ہی پیش کی جائے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔