محمد حسین
محفلین
اپنے لیے کچھ اس کے سوا راستہ نہیں
ورنہ ستم گر آپ کوئی پالتا نہیں
بے چارگی میں قلب بھی مثلِ دماغ ہے
یہ سوچتا نہیں تو وہ کچھ چاہتا نہیں
کچھ ہے تو کیوں ہےاور نہیں کچھ تو کیوں نہیں
بس اتنا جانتا ہوں کہ کچھ جانتا نہیں
پیری کو اِس کے واسطے رکھ چھوڑیئے حسیں
یادوں کی خاطر آج جوانی عطا نہیں
ورنہ ستم گر آپ کوئی پالتا نہیں
بے چارگی میں قلب بھی مثلِ دماغ ہے
یہ سوچتا نہیں تو وہ کچھ چاہتا نہیں
کچھ ہے تو کیوں ہےاور نہیں کچھ تو کیوں نہیں
بس اتنا جانتا ہوں کہ کچھ جانتا نہیں
پیری کو اِس کے واسطے رکھ چھوڑیئے حسیں
یادوں کی خاطر آج جوانی عطا نہیں