اپنے نفس کی قید سے نکلا نہ جا سکا----برائے اصلاح

الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
ڈاکٹر عظیم سہارنپوری
--------------
اپنے نفس کی قید سے نکلا نہ جا سکا
مجھ سے کسی بھی اور کا سوچا نہ جا سکا
-------------
محور مری ہی ذات تھی میرے لئے سدا
باہر بھی اک جہان ہے دیکھا نہ جا سکا
---------------
تجھ سے حسین اور بھی ملتے رہے مجھے
لیکن کسی بھی اور کو چاہا نہ جا سکا
-----------
تجھ کو جفا کا شوق تھا کرتے رہے یہی
-------یا
تیری جفا کو بھول کے کرتے رہے وفا
مجھ سے تجھے جو بیر تھا پرکھا نہ جا سکا
-----------یا
دل میں ترا جو پیار تھا نوچا نہ جا سکا
-----------
چاہا غبارِ غم کو میں رو کے نکال دوں
روکا مجھے انا نے تھا رویا نہ جا سکا
----------
دنیا مری نہ آج ہے کل بھی مری نہ تھی
مجھ سے ہی اس جہان کو برتا نہ جا سکا
---------
پردیس جا کے آپ نے ڈیرا لگا لیا
مجھ سے بہت ہی دور تھے پہنچا نہ جا سکا
---------
کرتا ہوں تجھ کو یاد میں ، جانے کے بعد بھی
دل سے ترے خیال کو کھرچا نہ جا سکا
-------
ارشد کا دل اداس تھا تیرے بغیر کل
تیرے بغیر آج بھی سویا نہ جا سکا
-----------
 
میری طرف سے کچھ مشورے

مجھ سے نفس کی قید سے نکلا نہ جا سکا
اپنے سوا کسی کا بھی سوچا نہ جا سکا

دوسرا شعر

تا عمر اپنی ذات ہی محور رہی مرا

افسوس اپنی ذات ہی محور رہی سدا
باہر بھی اک جہان ہے سوچا نہ جا سکا

تجھ سے حسین اور بھی ملتے رہے مجھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چاہا نہ جا سکا

ایسا لگ رہا ہے کہ آپ چاہناتو چاہ رہے تھے
لیکن چاہا نہ جا سکا

اس غزل می ں یہ شعر اور دوسرےبھی کچھ شعر شاید اس غزل میں ایسے ہوں ان کو آپ دوسری غزل کے لئے رکھ لیں
جیسے
تیرے سوا کسی کو بھی چاہا نہیں کبھی

کہا جا سکتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
پہلے دونوں اشعار پر عظیم میاں کا مشورہ اچھا ہے
تجھ سے حسین اور بھی ملتے رہے مجھے
لیکن کسی بھی اور کو چاہا نہ جا سکا
----------- دوسرے مصرعے میں بھی بھرتی کا لگ رہا ہے، یا 'کسی اور کو بھی' ہوتا رو درست ہوتا

تجھ کو جفا کا شوق تھا کرتے رہے یہی
-------یا
تیری جفا کو بھول کے کرتے رہے وفا
مجھ سے تجھے جو بیر تھا پرکھا نہ جا سکا
-----------یا
دل میں ترا جو پیار تھا نوچا نہ جا سکا
-----------
پہلا متبادل تو واضح نہیں 'یہی' کیا کرتے رہے
دوسرا درست ہے
دوسرے مصرعے میں بیر کی بات بھی عجیب سی لگ رہی ہے، اور دوسرے متبادل میں پیار کو 'نوچنا' محاورہ کے خلاف ہے

چاہا غبارِ غم کو میں رو کے نکال دوں
روکا مجھے انا نے تھا رویا نہ جا سکا
---------- 'رو' 'روکا' 'رویا' میں 'رو' کا پہاڑا لگ رہا ہے!
دوسرے مصرعے کو تبدیل کر کے 'روکا' کو نکال دیں

دنیا مری نہ آج ہے کل بھی مری نہ تھی
مجھ سے ہی اس جہان کو برتا نہ جا سکا
--------- ٹھیک

پردیس جا کے آپ نے ڈیرا لگا لیا
مجھ سے بہت ہی دور تھے پہنچا نہ جا سکا
--------- اسے نکال ہی دیں

کرتا ہوں تجھ کو یاد میں ، جانے کے بعد بھی
دل سے ترے خیال کو کھرچا نہ جا سکا
------- کھرچا؟ یہ بھی پسند نہیں آیا

ارشد کا دل اداس تھا تیرے بغیر کل
تیرے بغیر آج بھی سویا نہ جا سکا
----------- پہلے مصرع میں بھی 'بھی' لانا بہتر ہے
ارشد کا دل اداس تھا کل بھی ترے بغیر
 
بیچ کے اشعار میں بھی کھرچا نوچا وغیرہ کی جگھ کچھ اور لایا جائے ویسے بھی اشعار میں مزا نہیں آرہا ہے
مقطع کے لئے مشورہ

ارشد کا دل اداس تھا کل بھی ترے بنا
تیرے بغیر آج بھی سویا نہ جا سکا

فرقت میں تیری آج۔۔۔۔۔
 
الف عین
-----
اصلاح کے بعد ایک بار پھر
-------------
مجھ سے نفس کی قید سے نکلا نہ جا سکا
اپنے سوا کسی کا بھی سوچا نہ جا سکا
---------
میں گِرد اپنی ذات کے ہی گھومتا رہا
------
محور بنا کے ذات کو ہی گھومتا رہا
باہر بھی اک جہان ہے دیکھا نہ جا سکا
----------
ان کے جو دل میں چور تھا ، وہ مجھ پہ اب کھلا
پہلے جفا کے طور کو پرکھا نہ جا سکا
--------
تیری طرح کے اور بھی چہرے حسین تھے
ان کو کبھی یوں پیار سے دیکھا نہ جا سکا
-------------
تیری جفا کو بھول کے کرتے رہے وفا
ہم سے سوائے پیار کے سوچا نہ جا سکا
-----------
چاہا غبارِ غم کو میں رو کر نکال دوں
کتنی ہی بار سوچ کے رویا نہ جا سکا
--------
دنیا مری نہ آج ہے ، کل بھی مری نہ تھی
مجھ سے ہی اس جہان کو برتا نہ جا سکا
----------
تیری ہی دل میں یاد ہے جانے کے بعد بھی
تجھ کو بُھلا کے اور کو چاہا نہ جا سکا
-----------
ارشد کا دل اداس تھا کل بھی ترے بنا
فرقت میں تیری آج بھی سویا نہ جا سکا
------------
 

الف عین

لائبریرین
میں گِرد اپنی ذات کے ہی گھومتا رہا
------
محور بنا کے ذات کو ہی گھومتا رہا
باہر بھی اک جہان ہے دیکھا نہ جا سکا
-------- میں گرد.. والا پہلا متبادل بہتر ہے

ان کے جو دل میں چور تھا ، وہ مجھ پہ اب کھلا
پہلے جفا کے طور کو پرکھا نہ جا سکا
-------- سمجھ نہیں سکا

تیری طرح کے اور بھی چہرے حسین تھے
ان کو کبھی یوں پیار سے دیکھا نہ جا سکا
------------- ٹھیک، کبھی کے بدلے اگر ہو تو؟

تیری جفا کو بھول کے کرتے رہے وفا
ہم سے سوائے پیار کے سوچا نہ جا سکا
----------- چلے گا

چاہا غبارِ غم کو میں رو کر نکال دوں
کتنی ہی بار سوچ کے رویا نہ جا سکا
-------- رو نہ سکنے کی وجہ مبہم کر دو تو اچھا ہے شاید
لیکن نہ جانے کس لئے رویا....

دنیا مری نہ آج ہے ، کل بھی مری نہ تھی
مجھ سے ہی اس جہان کو برتا نہ جا سکا
----------
تیری ہی دل میں یاد ہے جانے کے بعد بھی
تجھ کو بُھلا کے اور کو چاہا نہ جا سکا
----------- صیغہ غائب میں شاید بہتر ہو
آتا ہے اب بھی یاد وہ جانے کے بعد بھی
اس کو بھلا...
صیغہ حاضر میں 'ترے جانے کے بعد' لانے کی ضرورت ہے

ارشد کا دل اداس تھا کل بھی ترے بنا
فرقت میں تیری آج بھی سویا نہ جا سکا
------------ درست
 
Top