منیر انور
محفلین
کٹی پتنگ کی مانند ڈولتے ہو تم
مجھے وطن سے نکالے گئے لگے ہو تم
یہ اور بات کہ اب مصلحت شعار ہوئے
قریب میرے بھی ورنہ کبھی رہے ہو تم
کوئی رفیق نہ منزل نہ کوئی رخت سفر
یہ کس خمار میں ، کس سمت کو چلے ہو تم
فضائیں اس کی تمہیں اب بھی یاد کرتی ہیں
کہ جس دیار میں کچھ دن رہے بسے ہو تم
کوئی امید نہ وعدہ نہ حوصلہ کوئی
یقین ہی نہیں آتا چلے گئے ہو تم
تمہارے روپ کا کندن بتا رہا ہے ہمیں
کسی کی آگ میں اک عمر تک جلے ہو تم
سکوں کا ایک بھی لمحہ نہیں نصیب انور
مرا خیال ہے محور سے ہٹ گئے ہو تم
منیر انور