محمد خرم یاسین
محفلین
ایک صاحب کو اکثر دیکھتا تھا وہ صبح سویرے اٹھتے ہوں گے اور شاید نماز بھی ادا کرتے ہوں گے اس کے باوجود علی الصبح جب وہ سیر کے لیے باغ میں پہنچتے تو ان کا بے شکن سفید لٹھے کا لباس ان کی باریش شخصیت کو چار چاند لگاتا۔ وہ خوب دوڑ لگاتے اور اکثر جوانوں کو بھی اس میں پیچھے چھوڑ جاتے۔ میں ان کی شخصیت سے لاشعورںی طورپر مرعوب تھا اسی لیے ان کی مخالف سمت سے دوڑنا شروع کرتا تاکہ یہ نہ لگے میں ان کی پیروی کر رہا ہوں۔ ۔۔۔
اتفاق دیکھیے چند روز قبل ان سے ایک دوست کے ساتھ اتفاقی ملاقات ہوئی اور انھوں نے بزرگ کا تعارف کروایا تو میں نے بھی ان کے حوالے سے اپنی معلومات کی پٹاری کھولی۔ واپسی پر دوست کو یہ بھی بتایا کہ میں ان سے بڑا مرعوب رہا ہوں۔۔۔ ان کا وہ سفید لٹھے کا بے شکن لباس اور ان کا اس عمر میں بھی دوڑ کا انداز۔۔۔۔۔اس پر دوست نے بتایا کہ یہ لباس ان کی سفید پوشی کے سوا کچھ نہیں، اور میں نے شاید اس چیز پر کبھی غور نہیں کیا کہ وہ ایک ہی لباس ہرصبح کیوں پہنتے تھے ؟ کیوں کہ بعد میں وہ سارا دن گندے، میلے کچیلے ٹراوزر میں مبتلا اپنی خراد کی دکان پر کام کرتے رہتے تھے۔ یہاں آنے کا مقصد سفید پوشی کے علاوہ بیٹیوں کے لیے اچھے رشتوں کی تلاش بھی تھا اور ان کا دوڑنا اس لیے تھا کہ وہ بیچارے شوگر جیسے موزی مرض سے لڑ سکیں۔ یعنی شوگر انھیں دوڑا رہی تھی ۔۔۔ دوسروں کو دیکھ کر رشک کرنے، ان سے مرعوب ہوجانے یا اپنی کمیوں کا رونا رونے سے کہیں بہتر ہے ہم ان نعمتوں کا شمار کریں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہوئی ہیں۔ شاید اسی طرح ہم کسی حد تک مطمئن زندگی گزار پائیں۔
خرم