نیلم
محفلین
اے کم تسی کر دودو بول ہمدردی کے بول کر اس کے حق میں دعا کرنا چاہیے تھی نہ کہ اس کا مذاق اڑایا جاتا۔۔۔ ۔
ظالم سماج۔۔۔ ۔
اے کم تسی کر دودو بول ہمدردی کے بول کر اس کے حق میں دعا کرنا چاہیے تھی نہ کہ اس کا مذاق اڑایا جاتا۔۔۔ ۔
ظالم سماج۔۔۔ ۔
جو بدل گئی وہ قسمت ہی کیا،،قسمت تو وہ ہے جو لکھی جا چکی ہے،،،،ایسا ہے کیا؟قرآنِ مجید کی آیت کا مفہوم ہے
انسان کو وہی کچھ ملتا جس کے لئے وہ کوشش کرتا ہے ۔۔۔ ۔!
اس لئے انسان کوشش تو جاری رکھنی چاہئے لیکن نتیجہ اللہ پر چھوڑ دینا چاہئے ۔۔۔ ۔
اس لئے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ انسان اپنی عقل کا استعمال کر کے اور محنت کر کے اپنی قسمت بھی بدل سکتا ہے ۔۔!
اس لئے اقبال نے کہا تھا
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
آج میں فیس بک پہ ایک حکایت پڑھ رہی تھی تو یہ سوال میرے دماغ میں آیا اس بارے میں آپ سب کی کیا رائےہےکہ
اچھی زندگی عقل کی محتاج ہے یا قسمت کی ؟
بعض لوگوں کو ہم کہتے سُنتے ہیں ارے میری تو قسمت ہی خراب ہے جس کام میں ہاتھ ڈالتا ہوں ناکام ہی رہتا ہوں،،
جب کسی لڑکے یا لڑکی کی شادی طلاق میں بدل جاتی ہے تو لوگ کہتے ہیں ،،بےچاری یا بےچارہ بہت بد نصیب ہے،
اکثر لوگوں کو میں نے دیکھاہے اُن کی ساری زندگی عیش وآرام سے گزرتی ہے اور کچھ بے چارے ساری زندگی دکھوں تکلیفوں اور ناکامیوں میں گزار دیتے ہیں ،،،
جولوگ ایک کامیاب زندگی گزارتے ہیں یہ اُن کی عقل کا کمال ہوتا ہے یا قسمت کا؟
ویری ٹریو زبردستاس بات پر مجھے مشہور پشتو شاعر رحمان بابا کا ایک شعر یاد آ گیا:
عقل مہ غواڑہ تہ بخت ٖغواڑہ رحمانا
عقل مند تل بختاوارو غلامان وی
(اے رحمان، تم عقل نہ مانگو بلکہ بخت (قسمت) مانگو، کیونکہ ہمیشہ عقل مند قسمت والوں کے غلام ہوتے ہیں)
یعنی وزیر عقل مند ہوتے ہیں لیکن بادشاہ قسمت والے ہوتے ہیں لیکن وزیر عقل کے ہوتے ہوئے بھی رعایا میں شامل ہوتے ہیں۔
ویری ٹریو زبردست
آپ اپنی عقل مجھے دے دیں
اچھا آپ بھیمیرے پاس ہو تو دوں گا۔
تے فیر موجاں کرو ۔۔ہے تو ٹھیک ،،لیکن اگر عقل بھی نہ ہو تو پھر
علماء کے نزدیک قسمت یا تقدیر کی دو قسمیں ہیں ۔۔۔ ایک وہ جو روزِ ازل سے ہر انسان کے لئے متعین ہے اور اس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی (علماء اس کو کوئی نام بھی دیتے ہیں جو مجھے یاد نہیں آ رہا )اور ۔۔۔۔۔دوسری وہ جسے انسان کوشش کر کے بدل سکتا ہے اور اِسی قسمِ تقدیر کے بارے میں اقبال نے کہا تھا ؎جو بدل گئی وہ قسمت ہی کیا،،قسمت تو وہ ہے جو لکھی جا چکی ہے،،،،ایسا ہے کیا؟
تقدیر مبرم ۔۔۔۔۔۔۔۔ مہد سے لحد تک جسمانی و روحانی معاملاتعلماء کے نزدیک قسمت یا تقدیر کی دو قسمیں ہیں ۔۔۔ ایک وہ جو روزِ ازل سے ہر انسان کے لئے متعین ہے اور اس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی (علماء اس کو کوئی نام بھی دیتے ہیں جو مجھے یاد نہیں آ رہا )اور ۔۔۔ ۔۔دوسری وہ جسے انسان کوشش کر کے بدل سکتا ہے اور اِسی قسمِ تقدیر کے بارے میں اقبال نے کہا تھا ؎
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
شکریہ نایاب بھائی آپ نے میری بات کی مزید وضاحت کردی ۔۔۔۔!تقدیر مبرم ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ مہد سے لحد تک جسمانی و روحانی معاملات
تقدیر معلق ۔۔۔ ۔۔ دنیاوی معاشرتی معاملات میں عقل و کوشش کی بنیاد پر حاصل ہونے والے نتائج
آج میں فیس بک پہ ایک حکایت پڑھ رہی تھی تو یہ سوال میرے دماغ میں آیا اس بارے میں آپ سب کی کیا رائےہےکہ
اچھی زندگی عقل کی محتاج ہے یا قسمت کی ؟
بعض لوگوں کو ہم کہتے سُنتے ہیں ارے میری تو قسمت ہی خراب ہے جس کام میں ہاتھ ڈالتا ہوں ناکام ہی رہتا ہوں،،
جب کسی لڑکے یا لڑکی کی شادی طلاق میں بدل جاتی ہے تو لوگ کہتے ہیں ،،بےچاری یا بےچارہ بہت بد نصیب ہے،
اکثر لوگوں کو میں نے دیکھاہے اُن کی ساری زندگی عیش وآرام سے گزرتی ہے اور کچھ بے چارے ساری زندگی دکھوں تکلیفوں اور ناکامیوں میں گزار دیتے ہیں ،،،
جولوگ ایک کامیاب زندگی گزارتے ہیں یہ اُن کی عقل کا کمال ہوتا ہے یا قسمت کا؟
نصیب اول دوئم عقل
اک حکایت سنتی جاؤ۔
اک بیوقوف بدو اک اونٹ پر اک طرف ریت لادے اور دوسری طرف گندم کی بوری لادے جا رہا تھا۔ کہ کوئی قسمت کا مارا دانا اس سے آٹکرا۔۔۔ اب اس نے دیکھا۔ تو تعجب سے اسے دیکھا۔ ان دنوں انگلیاں دانتوں میں دبانے کا رواج نہ تھا۔ اس نے کہا۔
اے بیوقوف انسان۔
تو نے اونٹ پر یہ دو بوریاں کیوں لاد رکھی ہیں۔
یہ ماجرا کیا ہے۔
آخر کیوں تو اس بے زبان اونٹ پر اتنا بوجھ لاد رہا ہے۔
بولتا کیوں نہیں
اس پر اس احمق بدو نے کہا اوئے عقل کے مارے دانا۔ ذرا سانس لے تو میں بھی بولوں۔
ماجرا یہ ہے کہ اونٹ پر وزن برابر کرنے کو اک طرف ریت اور دوسری طرف بوری لاد رکھی ہے۔
اس پر دانا ہنس پڑا۔ پرانے داناؤں میں قہقہہ لگا کر ہنسنا بے ادبی سمجھا جاتا تھا۔
اس نے کہا کہ تو نے یہ گندم دو بوریوں میں آدھی آدھی کیوں نہ ڈال لی۔ وزن بھی برابر رہتا۔ اور اونٹ پر بھی بوجھ نہ پڑتا۔
اب اس بیوقوف نے انگلیاں دانتوں تلے دبا لیں۔ یہ کام آگے چل کر حیرانگی ظاہر کرنے کا رواج بنا۔
اس نے کہا۔
یا حیرت!
تو اتنا عقلمند ہے تو تیرا یہ حال کیوں ہے۔ اے انسان!
اس پر دانا نے کہا۔ دانے نصیب سے ملتے۔ (یہ دانے سے مراد گندم کا دانا ہے نہ کے دانا کی جمع دانے)
یہ بات سن کر وہ بدو بھڑک اٹھا۔ اور بولا
او نامراد دانا!
نکل لے یہاں سے۔
کہیں اپنی منحوس عقلمندی کا سایہ مجھ پر نہ ڈال دینا۔
کیا فائدہ ایسی عقلمندی کا جو تجھے دو وقت کی روٹی نہ دے سکے۔
اخلاق سبق: زندگی نصیب سے بنتی ہے۔ مگر اگر عقل ہو تو مزا دوچند ہو جاتا ہے۔
نوٹ: اس حکایت پر اپنے خیالات کا اظہار میں تھوڑی دیر میں کرتا ہوں۔
میرا خیال ہے اچھی زندگی وہ ہوتی ہے جس میں سکون ہو ،،اگر شوہر ہے تو بیوی کی طرف سے ماں باپ بہتر روزگار اور گھر کی طرف سے اگر بچے ہیں تو فرمابدار بچوں کی طرف سےیعنی ایک پرسکون اور سمود لائف ۔اور اگر عورت ہے تو شوہر اچھا ہو برسرروزگار ہو،،زندگی آرام اور سکون سے گزر جائےاچھا نصیب میرے خیال ہے اسی کو کہتے ہیں ،،دو باتوں کی وضاحت ہوجائے تو جواب تک پہنچنے میں آسانی رہے گی
اچھی زندگی کسے کہتے ہیں ؟
اور قسمت یا نصیب کا اچھا یا برا ہونا کیا ہے ؟
انسان اپنی ذمہ داریوں کو پہچانے اور اسے پورا کرے یقینا اس کے لیے عقل کی بھی ضرورت ہے سو اس کا نصیب اچھا ہےمیرا خیال ہے اچھی زندگی وہ ہوتی ہے جس میں سکون ہو ،،اگر شوہر ہے تو بیوی کی طرف سے ماں باپ بہتر روزگار اور گھر کی طرف سے اگر بچے ہیں تو فرمابدار بچوں کی طرف سےیعنی ایک پرسکون اور سمود لائف ۔اور اگر عورت ہے تو شوہر اچھا ہو برسرروزگار ہو،،زندگی آرام اور سکون سے گزر جائےاچھا نصیب میرے خیال ہے اسی کو کہتے ہیں ،،