طارق شاہ
محفلین
غزل
نظیؔر اکبر آبادی
گُل رنگی و گُل پیرَہَنی گُل بَدَنی ہے
وہ نامِ خُدا حُسن میں سچ مُچ کی بنی ہے
گُلزار میں خُوبی کے اب اُس گُل کے برابر
بُوٹا ہے نہ شمشاد نہ سرو چَمَنی ہے
انداز بَلا، ناز، سِتم، قہر، تبسّم
اور تِس پہ غضب کم نگہی، کم سُخَنی ہے
اُس گورے بدن کا کوئی کیا وصف کرے آہ !
ختم اُس کے اوپر گُلرُخی و سیمتَنی ہے
مُنہ چاند کا ٹُکڑا ہے، بدن چاند کی تختی
دنداں ہیں گُہر، ہونٹ عقیقِ یَمَنی ہے
بلوّر کی پُتلی کہوں یا موتی کا دانہ
یا، چِین میں اِک چینی کی مُورت یہ بنی ہے
نرمی میں، صفائی میں، نزاکت میں تن اُس کا
ریشم ہے نہ گُلبرگ، نہ برگِ سَمَنی ہے
گر پُھول کی پتّی کی بِنا پہنے وہ پوشاک
چِھل جاوے بدن اُس کا، یہ نازک بَدَنی ہے
کل میں کسی شخص سے، نام اُس کا جو پُوچھا
یعنی، یہ پری یا کہ غزالِ ختَنی ہے
وہ بولا کہ اِس شوخ کے تئیں کہتے ہیں ہیرا
کام اِس کا سدا دِلبَری و دِل شِکَنی ہے
تب مَیں نے وہیں ہنس کے کہا اُس سے نظیؔر، آہ !
ہیرا نہ کہو اِس کو، یہ ہیرے کی کنی ہے
نظیؔر اکبرآبادی