اکبر کا پورا نام : اکبر حسین
تخلص : اکبرؔ
والد کا نام : محمد حسین
دادا کا نام : فضل احمد
بچپن : دائود نگر، ضلع شاہ آباد
خاندان : صوبے دار اور کٹر مذہبی تھے
پیدائش : ۱۶؍نومبر۱۸۴۶ء
زبان میں مہارت : فارسی، عربی اور انگریزی میں مہارت حاصل تھی۔
تعلیم : کوئی معقول انتظام نہ تھا۔
ملازمت : ابتدا میں عرض نویسی اور بعد میں ۱۸۸۶ء کو الٰہ آباد کے جج کے عہدے پر فائز ہوئے
شادی : سترہ سال کی عمر میں شادی ہوئی ،پہلی بیوی زمیندار خاندان سے تعلق رکھتی تھی جو دیہاتی تھی اور عمر میں بڑی تھی، اکبر کو
پسند نہ آئی ان سے دواولادیں ہوئی۔ (۱) عابد حسین (۲) نذیر حسین
دوسری بیوی ایک طوائف ’’لوٹا جان‘‘ تھی
تیسری بیوی فاطمہ صغریٰ سے تھی جو ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ اس سے ان کو دو بیٹے اور ایک بیٹی ہوئی۔
(۱) ہاشم حسین (۲) عشرت حسین
شاعری کی ابتدا : ۱۸۷۷ء سے ان کی شاعری کا دور شروع ہوا۔شاعری کا مقصد قوم کی اصلاح تھا۔
۱) پیروڈی شاعری کے موجد ہیں۔
۲) طنز و مزاح میں شہرت پائی
۳) قومی یکجہتی کے علمبردار
۴) مغربی تہذیب کے خلاف
۵) تعلیم نسواں کی مخالفت
تصانیف : ۱) گنج نسیاں (شعری مجموعہ)
۲) کلیات اکبرؔ
۳) مکاتب اکبرؔ (مکاتب کا مجموعہ)
ایوارڈ : ۱۸۸۶ء میں انگریزوں کی طرف سے ’’خان بہادر‘‘ کا خطاب ملا
وفات : ۹؍ ستمبر ۱۹۲۱ء
اکبرؔ کو شاعری کا ملکہ قدرت سے عطا ہوا تھا۔ انہوں نے گیارہ سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ اس زمانے میں ایک طرف تو شرفا میں شعر و شاعری کا بہت چرچا تھا۔ اکثر لوگ شاعری کو ایک دلچسپ مشغلے کے طور پر اختیار کرتے تھے مگر اسی کے ساتھ یہ خیال بھی تھا کہ جس کو شعر و شاعری کا چسکا لگا وہ کسی کام کا نہ رہا۔ اسی لئے جب اکبرؔ کے چچا سیّد وارث علی کو یہ معلوم ہوا کہ یہ شعر کہتے ہیں تو یہ دیکھنے کے لئے کہ ان میں کس حد تک شعر کہنے کی صلاحیت ہے انھوں نے ایک مصرعہ دیا کہ اس پر دوسرا مصرع لگائو۔ مصرع یہ تھا ؎
بتوں کا عشق ہے عشق مجازی بھی حقیقت میں
اکبرؔ نے فوراً اس پر یہ مصرع لگایا ؎
یہ مصرعہ چاہیے لکھنا بیاضِ چشم وحدت میں
ان کے چچا بہت خوش ہوئے اور انہیں اندازہ ہو گیا کہ اکبرؔ کو شعر کہنے کا ملکہ قدرت کی طرف سے عطا ہوا ہے۔ اسی طرح اکبرؔ اب باقاعدہ شعر کہنے لگے اور الہ آباد کے مشہور شاعر غلام حسین وحیدؔ سے اپنےشعروں میں اصلاح لینے اور ان کے ساتھ مشاعروں میں شرکت کرنے لگے۔ انھوں نے شاعری کی ابتدا غزل سے کی۔ نوجوانی کا زمانہ تھا۔ طبیعت میں رنگینی تھی۔ گانے کا شوق تھا۔ اکبرؔ مجروں میں شرکت کرتے تھے۔ ارباب نشاط سے دلچسپی رکھتے تھے۔ اس زمانے میں ان کے کلام میں رنگینی ہے، شوخی ہے، غزل کے روایتی لب و لہجے میں محبوب کے ہجر و وصال کا بیان ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب غزل عبارت تھی لطف بیان، زبان کے چٹخارے، قافیہ پیمائی۔ یہی خصوصیات اکبر کی اس دور کی غزلوں میں نمایاں ہے۔ اس کے علاوہ رعایت لفظی کا اہتمام، دور از کار تشبیہات جن سے شاعری میں گنجلک پن پیدا ہو گیا ہے۔
جماتی ہے لب نازک پہ ان کے رنگ اپنا
یہ شوخیاں تو ذرا دیکھو سرخیِ پان کی
یا پھر عشقیہ جذبات کا بیان ہے۔ جس میں گہرائی نہیں ہے۔ بلکہ ان کا کہنا ہے ؎
جس حسیں سے ہوئی الفت وہی معشوق اپنا
عشق کس چیز کو کہتے ہیں محبت کیسی
اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابتدائی دور میں اکبرؔ نے اپنی شاعری میں جن جذبات و احساسات کا ذکر کیا ہے وہ عمومی ہے مگر خیالی نہیں ان کے دلی جذبات کی ترجمان ہے۔ ان کے اس دور کے شعر داغؔ کی شاعری یاد دلاتے ہیں۔
غزل کا سب سے بڑا وصف تغزل ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اس میں جن جذبات کا اظہار کیا جائے وہ فطری ہوں۔ ان کو بیان کرنے میں شاعر ایک خاص تہذیب اور ضبط و نظم کو ملحوظ رکھے۔ شعر میں لطافت اور دردمندی ہو۔ اس دور میں ہمیں اکبرؔ کے یہاں اس قسم کے اشعار بھی ملتے ہیں جن میں تغزل ہے۔ جیسے ؎
پروانہ جل کے خاک ہوا شمع رو چکی
تاثیر حسن و عشق جو ہونا تھا ہو چکی
تصوف ابتدا ہی سے غزل کا موضوع رہا ہے۔ سبھی شاعروں نے کم یا زیادہ تصوف کے اشعار کہے ہیں۔ اکبرؔ کے یہاں بھی ابتدا سے ہی تصوف کے شعر ملتے ہیں۔
ہم نے مخلوق میں خالق کی تجلی پائی
دیکھ لی آئینہ میں آئینہ گر کی صورت
اکبرؔ کے یہاں اس دور میں ایسے اشعار بھی مل جاتے ہیں جن میں طنز کا پہلو نمایاں ہے اور ان کے وہ طنزیہ و مزاحیہ اسلوب جو انھوں نے آگے چل کر اختیار کیا، اس کی نشاندہی کرتے ہیں۔ جیسے ؎
ہم آہ بھی بھرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
پھر وقت کے ساتھ ساتھ اکبرؔ کی شاعری کا رنگ بدلنے لگا۔ ان کو یہ احساس ہوا کہ شاعری صرف اپنے جذبات کو آسودہ کرنے کا ذریعہ نہیں ہے اس لیے وہ کہتے ہیں۔
غزل ایسی پڑھو مملو ہو جو اعلیٰ مضامین سے
کرو اب دوسرے کوچے میں اے اکبرؔ گذر اپنا
اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کا یہ شعر ایک طرح سے اسی بات کا اعلان ہے کہ انکی شاعری کا رنگ اب اور ہوگا۔
اکبرؔ کے زمانے میں ہندوستانی معاشرے میں ہر قسم کی تبدیلیاں بہت تیزی سے رونما ہو رہی تھیَ ایک تہذیب کی بساط اٹھ رہی تھی دوسری تہذیب اپنا رنگ جما رہی تھی۔ وقت کے ساتھ ادب و شاعری کا تصور بھی بدل رہا تھا۔اکبرؔ کے ذہن میں بھی یہ سوال اٹھ رہا تھا کہ پرانے انداز کی شاعری اب بے وقت کی راگنی ہے۔ ایک طرف تو حکمراں قوم کے ظلم و ستم، جبر و استحصال پر اکبر کو غم و غصہ تھا دوسرے معاشرے میں ان کو افراتفری نظر آرہی تھی۔ جس سے ایک مضحکہ خیز صورت حال پیدا ہو رہی تھی۔ انگریز نہ صرف سیاسی ہندوستان پر اپنا قبضہ جما رہے تھے بلکہ تہذیبی طور پر اسکو اپنا غلام بنا رہے تھے۔ ان کا رعب و دبدبہ اس قدر تھا کہ ان کے خلاف آواز اٹھانے کی کسی میں ہمت نہیں تھی۔ ۱۹۷۷ء میں لکھنو سے ’’لندن پنچ‘‘ کے جوڑ پر ’اودھ پنچ‘ ایک پندرہ روزہ اخبار نکلنا شروع ہوا جس کا مقصد معاشرے کی غلط رسم و رواج کو طنز و مزاح کا نشانہ بنانا تھا۔ ساتھ ساتھ وہ طنزیہ و مزاحیہ انداز میں برطانوی حکومت پر وار کرتا تھا۔ اکبرؔ نے اس اخبار میں کبھی نظم کبھی نثر میں سیاسی اور سماجی مسئلوں پر طنز و مزاحیہ شاعری میں اپنی انفرادی شان پیدا کر لی اور بہت مقبول ہوئے۔
طنزومزاح میں زیادہ ہی مبالغہ سے کام لیا جاتا ہے۔ اور صورت حال میں مزاح پیدا کرنے کے لئے اس میں زیادہ شدت ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے عام طور پر طنز و مزاح کی تہہ تک نہیں پہنچ پاتے۔ یہی اکبرؔ کے ساتھ بھی ہوا کہ انھوں نے جن چیزوں پر طنز کیا یا جن پر مزاحیہ انداز میں تنقید کی اس کو غلط روشنی میں دیکھا اور اس کی غلط تعبیریں کیں۔ اسی لئے اکبرؔ کو بار بار اپنے خیالات کی وضاحت کرنی پڑی۔
مزاح میں مزاح نگار کسی صورت حال، فرد، خیال کے مضحک پہلو کو مزاحیہ انداز میں اس طرح ابھارتا ہے کہ بے اختیار ہنسی آجاتی ہے اور بعد میں اس پر غوروفکر کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے؟
جہاں تک طنز کا تعلق ہے اس میں ناکامی کا احساس تھوڑی سی تلخی اور ہلکا سا حزن ہوتا ہے۔ جس پر طنز نگار ہلکا سا پردہ ڈال دیتا ہے۔ طنزومزاح کی خوبی یہ ہے کہ اس میں ان سب افسانوں کا ذکر کیا جا سکتا ہے جن کے ناگوار گزرنے کا خیال ہوتا ہے۔ اکبرؔ کے طنزومزاح کا نشانہ نئی تہذیب، سرسیّد اور ان کی تحریک، حکومت وقت، سیاسی تحریکیں ہیں۔
اکبرؔ نے اپنی شاعری میں ترقی وتہذیب کے غلط تصور پر وار کیے ہیں اور نئی تہذیب کی ترویج میں چوں کہ سر سیّد پیش پیش تھے اس لیے انھوں نے ان کو اور ان کی تحریک کو بھی اپنے طنزومزاح کا نشانہ بنایا۔ ابتدا میں اکبرؔکو یہ غلط فہمی بھی تھی کہ سرسیّد یہ سب انگریزوں کی خوشامد میں کر رہے ہیں اور یہ سب کرنے کے بعد وہ ان کی نگاہ میں عزت و و قعت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور عزت و شہرت چاہتے ہیں ۔ لیکن جب علی گڑھ جا کر رہنے کے بعد ان کی ملاقات سرسیّد سے ہوئی، تبادلۂ خیال ہوا تو ان کی یہ غلط فہمی دور ہو گئی۔ اور انھوں نے سرسیّد کی نیت پر شبہ کرنا چھوڑ دیا۔ مگر ان کی ترقی اور تہذیب کے تصور میں جو غلط اثرات مرتب ہو رہے تھے اکبرؔ نے طنزومزاح کے پیرائے میں ان پر کڑی تنقید کی۔
پانو کو بہت جھٹکا پٹکا زنجیر کے آگے کچھ نہ چلی
تدبیر بہت کی اے اکبرؔ تقدیر کے آگے کچھ نہ چلی
یورپ نے دکھا کر رنگ اپنا سیّد کو مرید بنا ہی لیا
سب پیروں سے یہ بچ نکلے اس پیر کے آگے کچھ نہ چلی
نئے زمانے کے تقاضوں سے متاثر ہو کر آزادیٔ نسواں کا مسئلہ بھی اٹھا۔ وہ عورتوں کی تعلیم کے مخالف تھے۔ اس لیے انھوں نے عورتوں کی تعلیم و ترقی و آزادی کا موضوع زیربحث لایا۔ اکبرؔ اس کو بھی مغربی تہذیب کی تقلید کا شاخسانہ سمجھتے تھے اور اس کے سخت مخالف تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ہندستانی عورت کو اگر مغربی طرز پر تعلیم دی گئی اور اس کو اسی طرح کی آزادی ملی تو وہ اپنی مشرقیت کھودے گی۔ عصمت و عفت کی حفاظت نہ کر سکے گی۔
بے پردہ کل جو نظر آئیں چند بیبیاں
اکبرؔ زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
لیکن اکبرؔ نے آزادی نسواں کی اپنے بس بھر مخالفت کی مگر انھوں نے دیکھا کہ وہ رنگ جہاں کو بدل نہین سکتے اور آہستہ آہستہ وہ اس سے متفق نظر آتے ہیں کہ عورتوں کو تعلیم دینی چاہیے مگر اسی حد تک کہ وہ گھرداری کر سکیں۔ بچوں کی تربیت کریں، خاندان کی دیکھ بھال کریں۔
تعلیم لڑکیوں کی ضروری تو ہے مگر
خاتونِ خانہ ہوں وہ سبھا کی پری نہ ہوں
ویسے لڑکیوں کی تعلیم کی حمایت میں کسی کی فرمائش پر انھوں نے ایک نظم بھی لکھی جس میں انھوں نے اس کی وضاحت کی کہ عورتوں کو کس قسم کی تعلیم ملنا چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ ؎
مشرق کی چال ڈھال کا معمول اور ہے
مغرب کے ناز و رقص کا معمول اور ہے
اکبرؔ کی طنزیہ مزاحیہ شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کا معتدبہ حصہ اس زمانے کی سیاست کا آئینہ دار ہے۔ اکبرؔ نے اردو میں پولیٹکل سٹائر کی روایت کو آگے بڑھایا اور اس کا ایک معیار قائم کیا۔ انگریز حکومت کی چیرہ دستیاں۔ لڑائو اور حکومت کرو کی پالیسی، کانگریس اور مسلم لیگ کی سیاست کے اتار چڑھائو، گاندھی جی کی تحریک عدم تعاون، زبان کا جھگڑا، جلیان والا باغ کا حادثہ، خلافت تحریک ، اکبرؔ نے ان سب کو اپنے طنزومزاح کا نشانہ بنایا۔ حکومت وقت پر اکبرؔ نے جس طرح کھل کر تنقید کی اور برٹش سامراج کے ہر ہر پہلو پر طنز کیا ہے اور مزاح کے پیرائے میں اس پر تنقید کی ہے وہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے۔
اکبرؔ کی شاعری کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ انھوں نے اردو شاعری میں طنزومزاح کی روایت کو آگے بڑھایا۔ ان کی شاعری اپنے دور کی تہذیبی تصادم اور سماجی تبدیلیوں کی بہترین ترجمان ہے۔ بقول رشید احمد صدیقی ’’اردو ادب میں طنزوظرافت کو سلیقہ اور صحیقہ اکبرؔ اور غالبؔ کا دیا ہوا ہے۔‘‘
اکبرؔ طنزومزاح کے شاعر کی حیثیت اتنے مشہور ہوئے کہ ان کی سنجیدہ شاعری پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ اگر ان کی کلیات کے چاروں حصوں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ان کا سنجیدہ کلام چاہے نظمیں ہوں ی غزلیں، قطعات ہوں یا رباعیات، مرکب ہوں یا مفرد، اشعاریہ اسلوب و معنی دونوں لحاظ سے اپنا منفرد رنگ رکھتی ہیں۔ ان کی غزلوں میں اعلیٰ پایہ کا تغزل ہے ؎
دل مرا جس سے بہلتا کوئی ایسا نہ ملا
بت کے بندے ملے اللہ کا بندہ نہ ملا
بزمِ یاراں سے پھری بادِبہاری مایوس
ایک بھی سرے سے آمادۂ سودا نہ ملا
آرزو ہے مجھے اک شخص سے ملنے کی بہت
نام کیا لوں کوئی اللہ کا بندہ نہ ہو گا
دل میں سوزش آنکھ میں آنسو
عشق ہے کھیل آگ پانی کا
اور اس شعر میں دیکھئے درد کی کیسی دھیمی دھیمی کسک ہے ؎
زخمی نہ ہوا تھا دل ایسا سینے میں کھٹک دن رات نہ تھی
پہلے بھی ہوئے تھے یہ صدمے روئے تھے مگر یہ بات نہ تھی
موت آئی عشق میں تو ہمیں نیند آ گئی
نکلی بدن سے جان تو کانٹا نکل گیا
تصوف کا یہ شعر دیکھئے ؎
زبانِ حال سے پروانۂ بسمل یہ کہتا تھا
حضوری ہو اگر حاصل مزہ ہے نیم جانی میں
کیا اچھا جنہوں نے دار پر منصور کو کھینچا
کہ خود منصور کو مشکل تھا جینا باخدا ہوکر
ضرورت کم ہےراہِ عشق میں خضر ہدایت کی
یہ قدر شوق سالک ہے خود کشش منزل میں ہوتی ہے
وہ صوفیوں کے عقیدے کے مطابق خود کو مٹا کر ذاتِ حقیقی میں گم ہونا چاہتے تھے ؎
تھا لگا روح پہ غفلت سے دوئی کا دھبا
تھا وہی صوفی صافی جو اسے دھوکے مرا
گو کہ غزل کے لغوی معنی عورتوں سے باتیں کرنے کے ہیں اور اس میں عشق و محبت کے جذبات کو بیان کیا جاتا ہے۔ محبوب کا سراپا، حسن ناز انداز، ہجر و وصال کی کیفیات، مگر اسی کے ساتھ شاعروں نے عشق مجازی اور حقیقی کے ساتھ ساتھ گذلوں میں کم ہی سہی ایسے اشعار بھی کہے ہیں جن میں زندگی کی دوسری حقیقتوں کا بیان ہے۔ اکبرؔ کے یہاں ایسے اشعار بہت ہیں۔
دنیا کی طوالت بے جا ہے خلقت کا تو لمبا قصہ ہے
ہر شخص فقط یہ غور کرے اس ’کل‘ میں مرا کیا حصہ ہے
دل سے کہہ سکتے ہیں یاں شمع بصیرت نہ بجھے
رات سے کہہ نہیں سکتے کہ شب تار نہ بن
تو خاک میں مل اور آگ میں جل جب خشت سے تب کام چلے
ان خام دلوں کے عنصر پر بنیاد نہ رکھ تعمیر نہ کر
میر تقی میرؔ کہتے ہیں ؎
ایک محروم ہمیں میرؔ چلے دنیا سے
ورنہ عالم نے زمانے کو دیا کیا کیا کچھ
مگر اکبرؔ کہتے ہیں ؎
کروں کیا غم کہ دنیا سے ملا کیا
کسی کو کیا ملا دنیا میں تھا کیا؟
پختہ طبعوں پر حوادث کا نہیں ہوتا اثر
کوہساروں پر نشانِ نقش پا ملتا نہیں
اکبرؔ کی غزلیات کا مجموعی طور پر اگر مطالعہ کیا جائے تو ہمیں ان کی غزلیات میں تین رنگ ملتے ہیں۔ ایک تو بالکل ابتدا میں روایتی انداز کی غزلیں جن میں ایک گھلاوٹ ہے، زبان کا لطف ہے اور کہیں کہیں مکالماتی انداز ہے جیسے ؎
جب کہا میں نے کہ پیار آتا ہے تم پر
ہنس کے کہنے لگے اور آپ کو آتا کیا ہے؟
میں حالِ دل تمام شب ان سے کہا کیا
ہنگامِ صبح کہنے لگے کس ادا سے ’’کیا؟‘‘
تم نے بیمارِ محبت کو ابھی کیا دیکھا
جو یہ کہتے ہوئے جاتے ہو دیکھا دیکھا
اس کے بعد ان کی وہ غزلیں جن میں اعلیٰ پایہ کا تغزل ہے، برجستگی ہے، تصوف کے اشعار بھی ہیں اور غزل کے سب لوازمات کو پورا کرتی ہیں۔ ان کو اردو شاعری کے غزلیات کے انتخاب میں نمایاں جگہ مل سکتی ہے اور ان غزلیات کی بناء پر بعض نقادوں کو خیال ہے کہ اکبرؔ صرف غزل گوئی تک اپنی شاعری کو محدود رکھتے تو ان اکا شمار چوٹی کے شعراء میں ہوتا لیکن اکبرؔ اپنے زمانے کے تقاضوں سے باخبر تھے اوروہ سرسیّد کی تحریک کے زیراثر ہونے والی ان اصلاحات سے بھی متفق تھے۔ ادب میں تبدیلیاں آنی چاہئیں، ادب کو اصلاح کا ذریعہ ہونا چاہیے۔ حالیؔ نے خاص طور سے اس پر زور دیا کہ غزل کی لفظیات اور مضامین دونوں میں تبدیلیاں لانی چاہئیں۔ اسی کا اثر ان کی غزلوں میں ایک اور رنگ نظر آتا ہے۔ ان کی ان غزلوں کے اشعار دیکھئے۔
واہ کیا راہ دکھائی ہے ہمیں مرشد نے
کردیا کعبے کو گم اور کلیسا نہ ملا
رنگ چہرے کا تو کالج نے بھی قائم رکھا
زنگ باطن میں مگر باپ سے بیٹا نہ ملا
سیّد گزٹلے کے جو اٹھے تو لاکھوں لائے
شیخ قرآن دکھاتے پھرے پیسہ نہ ملا
غزل پر سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ اس میں تسلسل نہیں ہے اور اس میں کوئی مربوط بات نہیں کہی جا سکتی۔ اکبرؔ کے یہاں مسلسل غزلیات بھی ہیں۔
وہ ہوا نہ رہی وہ چمن نہ رہا وہ گل رہے نہ وہ حسیں رہے
وہ فلک نہ رہا وہ سماں نہ رہا وہ مکاں نہ رہا نہ وہ مکیں رہے
وہ گلوں میں گلوں کی سی بو نہ رہی، وہ عزیزوں میں لطف کی خو نہ رہی
نہ وہ آن رہی نہ وہ امنگ رہی نہ وہ رندی و زہدی کی جنگ رہی
سوئے قبلہ نگاہوں کے رخ نہ رہے درِ دیر نقش جبیں نہ رہے
وہ طریقہ کار جہاں نہ رہا وہ مشاغل رونق دیں نہ رہے
اکبرؔ نے اس قسم کی غزلوں میں انگریزی لفظوں کو بھی خوبصورتی سے کھپایا ہے۔
یوسف کو نہ سمجھے کہ حسیں بھی ہیں جواں بھی
شاید نرے لیڈر تھے زلیخا کے میاں بھی
ہم ہوں جو کلکٹر تو وہ ہو جائیں کمشنر
ہم ان سے کبھی عہدہ برآ ہو نہیں سکتے
شیخ آنر کے لئے آتا ہے میدان کے بیچ
ووٹ ہاتھوں میں ہے اسپیچ دان کے بیچ
انگریزی کے ساتھ ہی انہوں نے بھاشا کے الفاظ کو بھی غزل کا حصہ بنایا ہے۔ جس سے غزل میں ہندوستانی فضا کی عکاسی ہوتی ہے۔
چھیڑا ہے راگ بھونرے کا ہوا کی ہے ایک نئی دھن بھی
غضب ہے سال کے بارہ مہینوں میں یہ ساون بھی
بڑے درشن تمہارے راجہ کی سیوا سے
مگر من کا پنپنا چاہتے ہو تو کرو پن بھی
اکبرؔ نے غزلوں کے مختلف موضوعات بیان کیے۔ نئی لفظیات اور تراکیب استعمال کیں۔ اس طرح کہ اس کی اشاریت اور ایمائیت قائم رہی۔
اکبرؔ کی شاعری کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ حالیؔ اور آزادؔ نے جو جدید نظم کا تصور پیش کیا تھا اور وہ جس قسم کی تبدیلیاں شاعری میں چاہتے تھے اکبرؔ ان سے متفق تھے اور ان کے اس خیال کے بھی حامی تھے کہ شاعری کو ملک و قوم کی اصلاح کا ذریعہ بنانا چاہیے۔ انھوں نے نہ صرف نظمیں کہیں بلکہ بلا قافیہ نظمیں کہنے کا تجربہ بھی کیا۔ اجسام کے فنون پرکرتے ہیں خود عمل اور چلا جاتا ہے ایک ننھا سا کیڑا رات کاغذ پر۔ اس کے علاوہ اکبرؔ نے قطعات بھی کہے ہیں اور رباعی کا قطعہ جوڈکشن میں غزل سے قریب ہے۔ اکبرؔ نے اسے نظم سے قریب کیا۔ رباعی کا خاص موضوع تصوف، اخلافِ دنیا کی بے ثباتی اور مناظر فطرت ہے۔ اس میں صرف دو شعر ہوتے ہیں اور مخصوص ارکان ہوتے ہیں۔ رباعی کے آخری مصرع میں شاعر اصل بات کہتا ہے۔ باقی تین مصرعوں میں اس کی تمہید باندھتا ہے۔
کیا تم سے کہیں جہاں کو کیا پایا
غفلت میں آدمی کو ڈوبا پایا
آنکھیں تو بے شمار دیکھیں لیکن
کم تھیں بخدا جن کو بینا پایا
غنچہ رہتا ہے دل گرفتہ پہلے
رنگ چمن فنا سے گھبراتا ہے
کہتی ہے نسیم آ کے راز فطرت
سنتے ہی پیام دوست کھل جاتا ہے
نئی شاعری کے حامی لوگوں نے رباعی میں اصلاحی مضامین باندھے اور سماجی و سیاسی واقعات کو پیش کیا۔ اکبرؔ نے اس طرح کی رباعیاں بھی کہی ہیں۔
اوروں کی کہی ہوئی جو دہراتے ہیں
وہ فونوگراف کی طرح گاتے ہیں
خود سوچ کے حسب حال مضمون نکال
انسان یونہی نہیں ترقیاں پاتے ہیں
اکبرؔ نے اپنی شاعری میں پرانی ترکیبوں اور اصلاحوں کو بھی نئے معنی دیئے ہیں جیسے ؎
رقیب سرٹیفکیٹ دیں تو ہو تسلیم
اگر یہ شرط ہے تو ترکِ عاشقی اولیٰ
اغیار تو رگ رگ سے ہماری ہوئے واقف
اک ہم ہیں کہ پاتے نہیں اس بت کی کمر بھی
یہاں رقیب اور اغیار دونوں انھوں نے اس معنی میں استعمال نہیں کیے ہیں جس معنی میں اردو شاعری میں استعمال ہوتے ہیں۔ ان دونوں سے مطلب انگریز قوم ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے خود ہی ترکیبیں وضع کیں، نئی علامتیں بنائی ہیں۔ جیسے گزٹ، باگزٹ، بدھو میاں، جمن، وفاتی، لالہ صاحب، پنڈت جی وغیرہ
اکبرؔ نے اپنی شاعری سے موضع اور تکنیک دونوں کے لحاظ سے اردو شاعری کو وسعت دی۔ شاعر کو شاعری کے جدید تصور سے آشنا کیا۔ سیدھے سادے الفاظ میں گہرے مطالب و معنی بیان کرنے کی طرح ڈالی، اور یہی ان کی اہمیت ہے۔
اردو شاعری میں اکبرؔ کو وہ مقام نہیں ملاجس کے اصل میں وہ مستحق تھے۔ اس کے دو سبب معلوم ہوتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ان کی شاعری کا بڑا حصہ طنزیہ و مزاحیہ ہے، دوسرے یہ کہ انھوں نے اپنے وقت کی سب سے بڑی ترقی پسند تحریک اور اس زمانے کے قائد سر سیّد کو اپنے طنزومزاح اور تنقید کا نشانہ بنایا۔ مغربی تعلیم اور تہذیب کی مخالفت کی اور جدید چیزوں کا مذاق اڑایا۔
جہاں تک طنزومزاح کا تعلق ہے اس کے بارے میں عام خیال ہے کہ یہ محض ایک خوش وقتی ہے اور دل بہلانے کا ذریعہ ہے یا طنز کر کے اپنے دل کے جلے پھپھولے پھوڑنا ہے۔ طنزومزاح کے اسلوب میں جو باتیں کہی جاتی ہیں ایک تو ان میں شدت بہت ہوتی ہے یا دوسرے لفظوں میں شاعر حددرجہ مبالغہ سےکام لیتا ہے دوسرے بادی النظر جو اس کے معنی ہوتے ہیں وہ اصل میں نہیں ہوتے بلکہ ان الفاظ ا ور پیرایۂ بیان میں اور معنی پوشیدہ ہوتے ہیں۔ طنز و مزاح نگار کی نظر کسی فرد، کسی رویے، کسی بات کے مضحک پہلو پر جاتی ہے جس کو وہ اپنے انداز میں اس طرح بیان کرتا ہے کہ مضحک پہلو ابھر کر سامنے آ جائے۔ لوگوں پر اس کا فوری ردعمل ہو تو یہ ہو کہ وہ ہنس پڑیں مگر اس کے بعد اس پر غور کریں۔ طنز میں درد، ناکام آرزوئوں کی تلخی، غلط باتوں پر غصہ، اصلاح کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔ اور ظرافت میں کھلم کھلا یا اشاروں میں کسی چیز یا رویے کے بھونڈے یا بے تکے پن کو دکھایا جاتا ہے۔
طنزومزاح کا مقصد ہنسی ہنسی میں لوگوں کو معاشرے کی کمیوں اور کجیوں کو دکھانا ہے۔ اکبرؔ کی شاعری کا مطالعہ بغور کیا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ اکبرؔ کے طنزومزاح کا مقصد یہی تھا۔
اکبرؔ کا زمانہ وہ تھا جب معاشرہ افراتفری کا شکار تھا جس کی عکاسی اکبرؔ کا یہ قطعہ بہت خوبی سے کرتا ہے۔
قدیم وضع پہ قائم رہوں اگر اکبرؔ
تو صاف کہتے ہیں کہ رنگ ہے میلا
جدید طرز اگر اختیار کرتا ہوں تو
اپنی قوم مچاتی ہے ہائے واویلا
ادھر یہ ضد ہے کہ لیمونڈ بھی چھو نہیں سکتے
ادھر یہ دھن ہے کہ ساقی صراحی مئے لا
ادھر دفتر تدبیر و مصلحت ناپاک
ادھر ہے ولی، ولایت کی ڈاک کا تھیلا
جو اعتدال کی کہیے تو وہ ادھر نہ ادھر
زیادہ حد سے دیئے سب نے ہیں پھیلا
اور ان کا یہ قطعہ جس کو واقعی لوگوں نے ایک لطیفہ سمجھ کر نظرانداز کردیا ہے۔ اس میں اکبرؔ نے کس خوبی سے مسلمانوں کی بےعلمی کی تصویر کھینچی ہے۔ اس پر کم ہی لوگوں کی نظر گئی ہے۔
خدا حافظ مسلمانوں کا اے اکبرؔ
ہمیں ان کی خوشحالی سے ہے یاس
یہ عاشق شاید منصور کے ہیں
نہ جائیں گے ولیکن سعی کے پاس
سنائوں تم کو ایک فرضی لطیفہ
کیا ہے جس کو میں نے زیب قرطاس
کہا مجنوں سے یہ لیلیٰ کی ماں نے
کہ بیٹا تو اگر کر لے بی اے پاس
تو فوراً بیاہ دوں لیلیٰ کو تجھ سے
بلادقت میں بن جائوں تیری ساس
کہا مجنوں نے یہ اچھی سنائی
کجا عاشق کجا کالج کی بکواس
بڑی بی آپ کو کیا ہو گیا ہے
ہرن پر لادی جاتی ہے کہیں گھاس
اگر یہ شرط ٹھہری وصل لیلیٰ کی
تو استعفا مرا بہ حسرت و یاس
اکبرؔ کو اعتراض اس پر تھا اور کیا غلط تھا۔
نئی نئی لگ رہی ہیں آنچیں یہ قوم بے کس پگھل رہی ہے
نہ مشرقی ہے نہ مغربی ہے عجب سانچے میں ڈھل رہی ہے
وہ تو کہتے ہیں ؎
ہوش میں رہ کے کرو دور نقائص اپنے
مغربی لوگ تو مست اپنے کمالات میں ہیں
سر میں سودا آخرت کا ہو یہی مقصود ہے
مغربی ٹوپی پہن یا مشرقی دستار باندھ
عزم کر تقلید مغرب کا ہنر کے زور سے
لطف کیا ہے لدیے موٹر پہ زر کے زور سے
غیرملکوں میں ہنر کو سیکھ تکلیفیں اٹھا
روکتے ہیں وہ اگر اپنے ہنر کے زور سے
کون کہتا ہے کہ تو علم نہ پڑھ عقل نہ سیکھ
کون سنتا ہے کہ نہ کر حسرتِ لندن پیدا
بس یہ کہتا ہوں کہ ملت کے معنی کو نہ بھول
اکبرؔ جدید تصورات زندگی کو اس لیے قبول کرنے کے مخالف تھے کہ حاکم قوم کا علم ہے بلکہ غوروفکر کے بعد جو چیزیں ہماری قوم کی ترقی کے لئے ضروری ہیں ان کو قبول کرنا چاہیے۔ وہ سیاسی غلامی سے زیادہ ذہنی غلامی کے خلاف تھے۔ جس کی طرف ہندوستانی قوم بغیر جانے بوجھے جا رہی تھی۔ وہ اس بات کے خلاف تھے کہ ہم اپنے ماضی، اپنی تاریخ، اپنی تہذیب اور مذہب کو فراموش کرکے مغرب کی تقلید کریں کہ مہذب بننے کا یہی طریقہ سکھایا جا رہا تھا۔ جو تعلیم دی جا رہی تھی وہ سرکاری تھی ؎
انجن آیا نکل گیا زن سے
سن لیا نام آگ پانی کا
علم پورا ہمیں لکھائیں اگر
تب کریں شکر مہربانی کا
اکبرؔ نے صرف ایک ہی شعر میں اس وقت کے تعلیم یافتہ لوگوں کی زندگی کا نقشہ کھینچ دیا ہے ؎
میں کیا کہوں احباب کیا کارِ نمایاں کر گئے
بی اے کیا، نوکر ہوئے، پینشن ملی اور مر گئے
یہ صحیح نہیں ہے کہ اکبرؔ نے طنزومزاح کو اس لئے اپنایا کہ وہ حکومت سے ڈرتے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اصل میں طنزومزاح سے انھیں فطری مناسبت تھی اور ان کی شاعری کی اہمیت یہ ہے کہ انھوں نے اردو شاعری میں طنزومزاح کی روایت کو آگے بڑھایا اور اسے اعلیٰ درجے کے طنزومزاح سے روشناس کرایا۔ اکبرؔ نے ایک خط میں کسی کو لکھا ہے۔ ’’ایسی ظرافت جو نری ظرافت ہو اور اس کے اندر کوئی اخلاقی نصیحت نہ ہو یا کوئی مذہبی و سوشل و فلسفیانہ نکتہ پیدا نہ ہو اچھی نہیں معلوم ہوتی۔‘‘ طنزیہ اور مزاحیہ ادب کی اہمیت کسی طرح سنجیدہ ادب سے کم نہیں ہے۔ ادب کا انسانی زندگی سے گہرا تعلق ہے اور انسانی زندگی مجموعی طور پر دکھوں، ناکامیوں اور پریشانیوں سے عبارت ہے۔ اس میں طنز ومزاح کی چاشنی لطف پیدا کرتی ہے۔ ہنسنا ہنسانا انسانی جبلت ہے اور اس کے سہارے انسان اپنی زندگی کی دشواریوں کا سامنا کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کس پر اور کیوں ہنسا جا رہا ہے۔ ہنسی کسی فرد یا جماعت کی دل آزاری کا سبب بھی بن سکتی ہے اور فرحت وانبساط کا بھی۔ اسی طرح طنز، عیب جوئی، طعن اور اعتراض بھی ہوسکتا ہے اور سماج کے غیرمعتدل رویوں، ریاکاری اور سماجی برائیوں کی طرف ہوتو وہ بامقصد ہوجاتا ہے۔ عام طور پر منفی بات اتنی آسانی سے اثر نہیں کرتی جتنی طنزیہ۔
اکبرؔ نے اپنے طنزومزاح سے معاشرے کی اصلاح کا کام کیا اور ہر قسم کے سیاسی، سماجی اور ادبی نظریات کی کمیوں کو نشانہ تمسخر بنایا۔ ان کو جہاں بھی بےاعتدالی یا کجی نظر آئی انھوں نے طنزیہ و مزاحیہ انداز میں اس کی طرف متوجہ کیا۔
بوٹ ڈاسن نے بنایا میں نے اک مضمون لکھا
ملک میں مضمون نہ پھیلا اور جوتا چل گیا
ہوئے اس قدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا
کٹی عمر ہوٹلوں میں مرے اسپتال جا کر
پانی پینا پڑا ہے پائپ کا
حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا
پیٹ جلتا ہے آنکھ آئی ہے
شاہ ایڈورڈ کی دہائی ہے
چھوڑ کر لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا
شیخ و مسجد سے تعلق ختم کر اسکول جا
چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ
کھا ڈبل روٹی کلرکی کر خوشی سے پھول جا
ان شعروں کو سرسری انداز سے پڑھ کر یہ رائے قائم کر لی جاتی کہ اکبرؔ ہوٹل، اسپتال، ٹائپ، پائپ، اسکول، ڈبل روٹی، کلرکی ہر چیز کے خلاف تھے۔ اس اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ یہ صرف سیدھے سادے الفاظ نہیں ہیں، اکبرؔ نے ان کو علامتوں کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ان کو اسکول جانے پر اعتراض نہیں ہے مگر وہاں جو تعلیم دی جا رہی ہے اس میں نہ اپنی زبان و ادب کی جگہ ہے نہ تعلیم کی۔
مہذب ہونے کا مطلب ہوٹلوں میں رہنا اور اسپتال جا کر مرنا سمجھا جا رہا ہے۔ ترقی کا مطلب ڈبل روٹی کھانا اور زندگی کی معراج کلرکی بن گئی ہے۔ اس میں بھی وہ اس پر معترض ہیں کہ لوگ غزالی اور رومی کو کیوں نہیں سنتے
غزالی و رومی کو بھلا کون سنے گا
محفل میں چھڑا نغمہ اسپنئرمل ہے
اپنی ایک نظم ’’چاہا جو میں نے ان سے طریق عمل پہ وعظ‘‘ میں اس زمانے میں کس قسم کی طرزِزندگی کو اپنایا جا رہا ہے اس کا نقشہ بہت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔
چاہا جو میں نے ان سے طریقِ عمل پہ وعظ
بولے کہ نظم ذیل کو ارقام کیجئے
پیدا ہوئے ہیں ہند میں اس عہد میں جو آپ
خالق کا شکر کیجئے آرام کیجئے
بے انتہا مفید ہیں یہ مغربی علوم
تحصیل ان کی بھی سحر و شام کیجئے
ہو جائیے طریقہ مغرب پہ مطمئن
خاطر سے محو خطرہ انجام کیجئے
رکھیے نمود و شہرت و اعزاز پہ نظر
دولت کو صرف کیجئے آرام کیجئے
سامان جمع کیجئے کوٹھی بنائیے
باصد خلوص دعوت حکام کیجئے
قومی ترقیوں کے مشاغل بھی ضرور
اس مد میں بھی ضرور کوئی کام کیجئے
جو چاہیے وہ کیجئے بس یہ ضرور ہے
ہر انجمن میں دعویٔ اسلام کیجئے
لیکن نہ بن پڑیں جو یہ باتیں حضور سے
مردوں کے ساتھ قبر میں آرام کیجئے
اکبرؔ نے خود اپنا بھی مذاق اڑایا ہے ؎
مدخولۂ گورنمنٹ اکبرؔ اگر نہ ہوتا
تو اس کو پاتے گاندھی کی گوپیوں میں
اکبرؔ پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی شاعری میں مغربی تعلیم کی مخالفت کرتے ہیں مگر خود اپنے بیٹے کو انگلستان بھیجا۔ اس سلسلے میں ایک بات تو یہ ہے کہ اکبرؔ مغربی تعلیم کے خلاف تھے نہ جدید تہذیب کے مگر اس تعلیم کے خلاف تھے جو انگریز غلام بنانے کے لئے ہندوستانیوں کو دے رہے تھے۔ وہ اس مغربی مغربی تہذیب کا نمونہ پیش کر رہے تھے جو اصل میں مغربی تہذیب نہیں تھی اس کا مقصد ایسے ہندوستانی پیدا کرنا تھا جو صرف زنگ میں ہندوستانی ہوں اور ان میں کوئی چیز ہندوستانی نہ ہو۔ جو ہمیشہ انگریزوں سے مرعوب بھی رہیں اور اس کی نظر کرم کے محتاج بھی۔
دوسری بات یہ ہے کہ اکبرؔ بھی اس زمانے کا حصہ اور جانتے تھے کہ اگر زمانے کے موافق اپنے بیٹے کو تعلیم نہیں دی تو اس پر ترقی کے دروازے بند ہو جائیں گے۔ اس لئے انھوں نے اپنے بیٹے عشرت حسین کو لندن بھیجا، اور اس نے بھی وہی کیا جو عام طور پر وہاں جا کر لڑکے کرتے تھے۔ ایک انگریز لڑکی کے عشق میں مبتلا ہو گیا اور سات سال لندن میں لگا دیئے۔ اس موضوع پر اکبرؔ الہ آبادی نے جو اشعار اور نظمیں کہی ہیں وہ بہت دلسوز ہیں اور یہ ان کا ذاتی المیہ نہیں اس زمانے کے اکثر ماں باپ کا المیہ تھا۔
ہند میں، میں ہوں مرا نورِ نظر لندن میں ہے
سینہ پر غم ہے یاں لخت جگر لندن میں ہے
دفتر تدبیر کو کھول گیا ہے ہند میں
فیصلہ قسمت کا اے اکبرؔ مگر لندن میں ہے
عشریت گھر کی محبت کا مزہ بھول گئے
کھا کے لندن کی ہوا عہد وفا بھول گئے
پہنچے ہوٹل میں تو پھر عید کی پرواہ نہ رہی
کیک کو چکھ کے سوئیوں کا مزہ بھول گئے
بھولے ماں باپ کو اغیار کے چرچوں میں وہاں
سایۂ کفر پڑا نورِ خدا بھول گئے
موم کی پتلیوں میں ایسی طبیعت پگھلی
چمن ہند کی پریوں کی ادا بھول گئے
بخل ہے اہل وطن سے جو وفا میں تم کو
کیا بزرگوں کی وہ سب جودوعطا بھول گئے
نقل مغرب کی ترنگ آئی تمہارے دل میں
اور یہ نکتہ مری اصل ہے کیا بھول گئے
لندن کو چھوڑ لڑکے اب ہند کی خبر لے
بنتی رہیں گی باتیں آباد گھر تو کر لے
انگلش کر کے کاپی دنیا کی راہ ناپی
اپنی ترقی میں بھی اپنے قدم کو دھر لے
ٹیچر پکارتا ہے، ہے اصل نسل تیری
کہتی ہے ہسٹری بھی بس جا اور اپنا گھر لے
مغرب کے مرشدوں سے تو پڑھ حکایت کچھ
پیرانِ مشرقی سے اب فیض کی نظر لے
میں بھی ہوں اک سخن ور آ سن کلام اکبرؔ
ان موتیوں سے آ کر دامن کو اپنے بھر لے
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اکبرؔ کی شاعری کا سلسلہ اقبال کی شاعری سے ملتا ہے۔ اقبالؔ نے اکبرؔ کو اپنا استاد معنوی کہا ہے۔ اپنے اشعار میں اکبرؔ کا ذکر کیا ہے اور ان سے متاثر ہو کر ان کے رنگ میں مزاحیہ شاعری بھی کی ہے۔ اور چوں کہ اقبالؔ اور اکبرؔ کے موضوعات میں بھی مماثلت ہے اکثر لوگ اقبالؔ کے مزاحیہ اشعار کو اکبرؔ سے منسوب کر دیتے ہیں۔ خاص طور سے ان کے تعلیم نسواں کے موضوعات پر جو شعر ہیں، جیسے
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
قوم نے ڈھونڈ لی فلاح کی راہ
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
مگر اقبالؔ کو طنزومزاح سے فطری مناسبت نہیں تھی اس لیے انھوں نے طنزیہ مزاحیہ اسلوب کو ترک کر دیا۔ مگر ان کے ظریفانہ کلام کو اکبری اقبال کہا جا سکتا ہے۔
اکبرؔ کو بھی اقبالؔ دل سے پسند تھے وہ ان کو اپنا ہم خیال سمجھتے تھے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں۔
امانت عشق کی بعد اپنے کیا جانے ملے کس کو
نہیں جائے کسی کے سر یہ دردِ سر اپنا
مدت کا پرانا شعر ہے۔ دیکھا جو بارِ غم میرے پر مستولی تھا آپ نے اٹھا لیا۔ ایک شعر میں اقبالؔ کی عظمت کا اعتراف یوں کرتے ہیں۔
دعویٔ علم و خرد میں جوش تھا اکبرؔ کو
ہو گیا ساکت مگر جب ذکر اقبالؔ آ گیا
اکبرؔ الٰہ آبادی کی شاعری کی اہمیت یہ ہے کہ ہم اپنی تہذیبی اقدار سے محبت کرنا سیکھتے ہیں۔ اس زمانے کے سیاست کے اتار چڑھائو کا نقشہ سامنے آتا ہے۔ انگریزی حکومت کی سیاسی چالوں، ہندوستانیوں میں انگریزوں کے مخالف و موافق تحریکوں کا حال معلوم ہوتا ہے۔ بقول رشید احمد صدیقی ’’اردو ادب میں طنزوظرافت کا سلیقہ و صحیفہ غالبؔ اور اکبرؔ کا دیا ہوا ہے۔‘‘
اکبرؔ نے اپنی شاعری میں اس پر زور دیا ہے کہ وقت کے ساتھ چلنے کی دھن میں ہم اپنا ماضی اپنی تہذیب نہ فراموش کر بیٹھیں بلکہ اپنا مستقبل ان کی بنیادوں پر تعمیر کریں۔ اکبرؔ کی آواز اپنے زمانے کی مخالف آواز ہے جس کی افادیت ہم پر وقت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ اجاگر ہوگی۔
اکبرؔ الٰہ آبادی بنیادی طور پر ایک شاعر تھے مگر وہ ایک اچھے نثرنگار بھی ہیں۔ انھوں نے ترجمے بھی کیے ہیں گو ان کی نثر میں کوئی مستقل تصنیف نہیں ہے مگر ان کے خطوط اور چھوٹے بڑے مزاحیہ اور سنجیدہ مضامین اودھ پنچ میں شائع ہوئے ہیں۔ ان کے خطوط کے کئی مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ جو انھوں نے اردو ادب کے مشاہیر کے نام لکھے ہیں۔ اکبرؔ کے زمانے میں اردو ہندی جھگڑا شروع ہو چکاتھا۔ یہ تنازعہ انگریزوں نے ہندو مسلمان کے درمیان تفرقہ ڈالنے کے لئے کیا تھا۔ اس موضوع پر اکبرؔ نے ایک مفصل مضمون لکھا جو کسی فرضی نام سے شائع ہوا تھا کیوں کہ اکبرؔ سرکاری نوکر تھے۔ اس رسالے کا ذکر انھوں نے عبدالماجد دریابادی کے نام خطوط میں کیا ہے۔’’ میں نے بھی ایک بڑا مضمون لکھا تھا وہ ’ایک واقف کار مسلمان‘ کی رائے میں چھپا تھا۔ کیوں کہ میں اس وقت مرزا پور میں سیشن جج تھا اور سر ابیٹی میکڈانل کی گورنمنٹ حامی ہندی تھی اس سبب سے میرا نام ظاہر نہیں کیا گیا۔‘‘
ولفر ڈسکاون بلنٹ کی قبوجر آف اسلام کا ترجمہ کیا ہے۔ اس کی تمہید میں اکبر نے لکھا ہے کہ اس کتاب کا مقصد یہ ہے کہ بلنٹ اپنے ہم وطنوں خاص طور پر پارلیمنٹ انگلستان کو اسلام کے حالات پر توجہ دلانے کے لئے تصنیف کی تھی لیکن اکبرؔ کا خیال تھا کہ اس کا ترجمہ ہونا چاہیے۔ اکبرؔ نے جب یہ ترجمہ کیا تھا تو وہ علی گڑھ کے منصف تھے۔ اکبرؔ نے بلنٹ سے کلکتہ میں ملاقات کی اور اس سے ترجمہ کی اجازت لی۔ بلنٹ نے نہ صرف اجازت دی بلکہ دیباچہ ثانی بھی اس کے لئے لکھا۔ اس میں اکبرؔ کے ترجمے کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا ہے۔ ’’میں نے لفظی ترجمہ کیا ہے اور مصنف کے سلسلہ خیالات کو ذرا برہم ہونے نہیں دیا۔ فقروں کی ترکیب کی پیچیدگی دور کی ہے۔ معانی کو کامل اور روشن کرنے کے لئے ایک لفظ کے ترجمے میں حسب ضرورت دو دو اور تین تین الفاظ لکھ دیئے ہیں لیکن خیالات پیچیدہ کا سہل کرنا میرا کام نہ تھا۔‘‘
اگرچہ شروع کے زمانے کے زیادہ تر خطوط تلف ہو گئے۔ اکبرؔ اس بات سے بہت گھبراتے تھے اور جو ذاتی باتیں اپنے دوستوں کو لکھی ہیں سیاسی معاملات میں بے تکلفی سے جس طرح اظہار خیال کیا ہے وہ برسرعام آئیں۔ اسی لئے جب لوگ ان سے یہ خیال ظاہر کرتے تو اکبرؔ ان کو مختلف وجوہات سے منع کر دیتے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں ’’ سوشل مصلحت، پولیٹیکل نزاکت، لٹریری صحت ان باتوں کا خیال نہیں رہتا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ خطوط چھپنے سے کیا فائدہ۔ میں اہل زبان تو ہوں نہیں اور وقت زبان خود معرض تغیر ہیں ہے۔‘‘
ایک اور جگہ لکھتے ہیں ’’وقت پرآشوب ہے، بدگمانیوں کا دور ہے۔ خطوط اس خیال سے نہیں لکھے گئے کہ وہ شائع ہوں۔‘‘
اس لئے اکبرؔ کے خطوط کے مجموعوں میں زیادہ تر آخر زمانے کے خطوط ہیں جب وہ بوڑھے ہو گئے تھے۔ نوعمر بیٹے کے انتقال کا صدمہ ان پر پڑا تھا۔ طرح طرح کے امراض میں گرفتار تھے۔ اس لئے ان کے خطوط میں ایک افسردہ دل زندگی سے بے زار انسان معلوم ہوتے ہیں۔
’’زندگی رہے (جس کا میں زیادہ شائق نہیں ہوں) تو ملنا ہو گا۔‘‘
’’توانائی نہیں ہے، احباب کا شدید تقاضا مجبور کرتا ہے ورنہ جی چاہتا ہے کہ مفقودالخبر ہو جائوں۔‘‘
’’سوسائٹی کا تعلق خاطرخواہ مجبور کرتا ہےاگر تندرست ہوتا تو جنگلوں اور پہاڑوں میں بھاگ جاتا۔‘‘
’’آپ خیریت پوچھتے ہیں، کوئی اپنا نہیں کہ اپنے مصائب اور تردد بیان کروں۔ ان سے مدد ملوں۔ پائوںکے نیچے آگ ہے اور آگے اندھیرا۔‘‘
بعض لوگوں نے اس پر اظہارِ خیال کیا ہے کہ ان کے خطوط میں وہ شگفتگی نہیں جو ان کی شاعری میں ہے۔ لیکن اس کے باوجود کم ہی سہی مگر بےتکلف دوستوں کو خط لکھتے وقت اکبرؔ نے اپنی جودت طبع کے خوب جوہردکھائے ہیں۔مثلاً دوست نے ان کے خط کے اختصار کی شکایت کی تو اس کی کیا دلچسپ توجیہہ کرتے ہیں ’’اگر میرا خط شب وصل سے بھی زیادہ مختصر تھا تو یہ سبب کہ وصل ملاقات ہے اور ’المکتوب نصف ملاقات‘ مشہور ہے۔ لہٰذا میرا خط نصف شب وصل تھا۔‘‘
’’یونیورسٹی کا میں ایسا خیرخواہ ہوں جیسے انگریزی عملداری کا۔‘‘
’’پا بہ رکاب کیا پیارا محاورہ ہے۔ ابھی گھوڑے پر سوار ہوں گے باگ اپنے ہاتھ میں ہو گی۔ لیکن اب تو ٹکٹ بدست ہوں ۔ کتنا زیادہ صحیح ہے۔‘‘
اکبرؔ کے خطوط کی خوبی یہ ہے کہ ان میں سادگی ہے اور بے ساختگی ہے۔ تصنع کہیں نہیں ہے۔ انھیں بہت زیادہ خط لکھنے کا شوق نہیں تھا۔ نہ وہ غالبؔ کی طرح کثیرالاحباب بھی نہ تھے۔ مگر دوستوں اور گھر والوں کو خط خود بھی لکھتے تھے اور جواب بھی دیتے تھے۔ کہیں کہیں انھوں نے زبان و بیان، شعر و ادب کے مسائل پر بحث کی ہے۔ اپنے خطوں میں وہ موسم، وقت اور ماحول کی عکاسی بھی بٖے فطری انداز سے کرتے ہیں۔ ایک خط میں اپنے کسی دوست کو اپنے بیٹے کی بارات میں ساتھ چلنے کی دعوت دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ’’چیت کے مہینے کا آغاز ہے۔ بلکہ عین موسم بہار ہوگا۔ دل تو چاہتا ہے کہ ایک شوخ، طرار، پرکالۂ آتش یہ گاتی ہوئی سامنے آئے ؎
ہے جلوۂ تن در و دیوار بسنتی
پہنے ہے جو پوشاک مرا یار بسنتی
اکبرؔ کے خطوط کی اہمیت ان کی شاعری کے سلسلے میں ایک تو یہ ہے کہ وہ اپنے خطوط، اپنے اشعار، قطعات اورنظمیں لکھتے ہیں۔ اس لئے ان کے کلام کی تاریخوں کے تعین میں بڑی مدد ملتی ہے دوسرے وہ اپنے اشعار کا پس منظر علامتوں کی تشریح کرتے ہیں۔ اس سے ان کی شاعری کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ ۔ ان کی شخصیت کو سمجھنے میںبھی ان کے خطوط میں معاون ہوتے ہیں۔ ایک دوست کو ان کے مضمون کے بارے میں لکھتے ہیں ’’خط کا شکریہ دس بارہ دن سے نزلہ میں مبتلا ہوں۔ طبیعت صحیح ہے، پھر جواب لکھوں گا۔ اسلام اور ایمان کے بارے میں آپ نے جو لکھا ہے بعض لوگوں نے نادانی سے اس کو مذہبی بحث سمجھا ہے۔ یہ نری حماقت ہے۔ ایمان نہیں تو اسلام کیسا؟ اسلام نہیں تو ایمان کیا؟ یہ ایک لٹریچری بحث ہے۔ آپ میرے پاس ہوئے تو میں آپ کو سمجھا دیتا اور آپ کی تشفی ہو جاتی۔ اس وقت میں نہیں لکھ سکتا۔ اگر آپ سے ملاقات ہوئی تو خوب ہے ورنہ فرصت میں لکھوں گا۔ لوگ کسی ایک آیت کو دیکھ کر لے اڑتے ہیں، تمام قرآن مجید پر نظر چاہیے۔ ہر ریلسجسی سرکل میں یہ مرض پھیلا ہوا ہے اور لاعلاج ہے۔‘‘
’’کاپی کلیات رجسٹری کر کے بھیج دی ہے۔ یہ ترتیب عشرت سلمہٗ نے کی ہے۔ ایک مدت دراز کا مجموعہ ہے۔ جس وقت جو ترنگ آئی موزوں ہو گئی اور سوم و دوّم و اوّل کا کچھ لحاظ زمانے کا رکھا گیا ہے۔ ظرافت اور اشعار متفرق بالکل مخلوط ہیں۔ بعض ظرافت جو بظاہر نہایت شوخ اور شدید زمانہ ہے۔ درحقیقت ایک پولیٹکل خیال کا اظہار ہے۔ لبرٹی اور سیلف گورنمنٹ کو قرار دیا ہے۔ اعلیٰ عہدوں کو وصل سمجھا اور مسلم پالیسی کو عاشق، لکھ دیا ؎
خاطر کو نہ حجت کی نہ غائب کی تلاش
کیوں وصل میں جستجو مکر کی وہ کرے
’’آگرہ اس وقت قومی تحریکوں کا مرکز ہو رہا ہے کھرے اور کھوٹے سب جمع ہیں آپ کو نقادی کا خوب موقع ہے ؎
جوں خلق بہر کرسمس بہر دیار روند
بلا کشان ترقی بہ لکچرار روند
غم اور سردی کی شدت میرے غم کا کیا پوچھنا ورنہ ہم اس کے مصداق ہوتے ؎
نہیں معلوم منزل ہے کدھر کس سمت جاتے ہیں
مچا ہے قافلے میں شور ہم بھی غل مچاتے ہیں
ڈاکٹر سیّد عبداللہ خطوطِ اکبر کے بارے میں لکھتے ہیں۔ ’’اکبرؔ الٰہ آبادی کے خطوط دلچسپ بھی ہیں اور مختصر بھی۔ اختصار کی خشکی، ظرافت اور اکثر موقعوں پر اپنے ہی اشعار سے دور کر جاتے ہیں۔‘‘
ایک اور نقاد نے ان کے خطوط کے بارے مین یوں اظہار خیال کیا ہے۔ ’’ان کے خطوط سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نہ وہ طویل علمی مباحثوں سے معمور ہیں اور نہ ہی لمبی لمبی خودکلامیوں پر مبنی ہیں۔ وہ نہایت اختصار سے مکتوب الیہ تک اپنی بات پہنچانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ ان کے جملے مختصر، سیدھے سادے، صاف واضح ہر قسم کی بناوٹ سے پاک ہیں۔‘‘
اکبرؔ نے مختلف لوگوں کی کتابوں پر دیباچے بھی لکھے ہیں جو مختلف کتابوں اور رسالوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ مثلاً ۱۹۰۴ء میں زمانہ کے ستمبر کے شمارے میں کنور عبدالغفور خاں رئیس علی گڑھ اور بلند شہر کا سفرنامہ ’’سفر امریکہ‘ کے عنوان سے شائع ہو رکھا تھا۔ اس پر اکبرؔ نے تمہید کے طور پر سفر کی اہمیت کے عنوان سے شائع ہو رہا تھا۔ اس پر اکبرؔ نے تمہید کے طور پر سفر کی اہمیت پر ایک چھوٹا سا مضمون لکھا ہے اور ’’سفر امریکہ‘‘ پر اظہار خیال کیا ہے۔ جوشؔ ملیح آبادی کے سب سے پہلے مجموعۂ نثر و نظم پر اکبرؔ نے دیباچہ لکھا ہے۔ جیسے اس زمانے میں تفریظ لکھا جاتا تھا۔
اودھ پنچ میں جو مضامین شائع ہوئے ہیں وہ زیادہ تر مزاحیہ ہیں۔ جن میں کسی بھی سیاسی، سماجی واقعہ پر مزاحیہ یا طنزیہ انداز ہے اظہار خیال کیا گیا ہے۔اس میں نئی روشنی کے لوگوں کو بھی طنزومزاح کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ مثلاً ایک مضمون میں سوائے اونٹ کے سب سواریاں موقوف اس میں اکبرؔ نے ان قدامت پرست مسلمانوں کا مذاق اڑایا ہے۔ جو لکیر کے فقیر ہیں ’’تم بھی برطرف یعنی حضرت خضر‘‘اس کا موضوع سرسیّد کے مذہب کے بارے میں تاویلات ہیں۔ ’’لوگ سچ کہتے ہیں کہ حضرت خضر کی عمر بڑی ہے۔ مدت دراز سے سیّد صاحب اپنی تخلیق کی تلوار سے مذہبی چیزوں کو ملک عدم کی طرف کھٹا کھٹ بھیج رہے ہیں لیکن اب تک حضرت خضر بچے ہوئے ہیں۔‘‘
اودھ پنچ میں داغ کے ایک شعر پر بحث چلی کہ اس کے دونوں مصرعے مربوط نہیں ہیں۔ شعر یہ ہے ؎
آنسو نہ پیے جائیں گے اے ناصح ناداں
ہیرے کی کنی جان کے کھائی نہیں جاتی
اکبرؔ نے داغ اور ہیرا نام سے ایک مضمون لکھا جو ان کی تنقیدی بصیرت کی نشاندہی کرتا ہے۔ اکبرؔ لکھتے ہیں ’’حسن زبان اور حسن خیال کے امتزاج سے عمدہ شعر پیدا ہوتے ہیں۔ انھوں نےحسن خیال سے بہت کچھ قطع نظر کی ہے اور حسن زباں کو اس قدر روندا ہے کہ غالباً زبان رہ گئی حسن جاتا رہا ۔۔۔۔۔ یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ہم صرف حسن خیال یا خیالات مفید کے طرف دار ہیں۔ ہرگز نہیں۔‘‘
اس کے بعد وہ حالی کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہیں ’’ہمارے مولانا حالی بھی کسی زمانے میں اچھے شاعر تھے لیکن حضرت نے اب حسن خیال کی دھن میں حسن بیان سے قطع نظر کی ہے، اور حسن خیال کو اس قدر روندا ہے کہ حسن جاتا رہا اور خیال ہی خیال رہ گیا۔‘‘
یہ وہ زمانہ تھا کہ اردو میں فورٹ ولیم کالج کی نثر وجود میں آگئی تھی۔ اودھ پنچ کے نثر نگار قدیم نثر کے دلدادہ تھے۔ اکبرؔ کی نثر کا جہاں تک تعلق ہے اس کو ان دونوں کا امتزاج کہا جا سکتا ہے۔ اکبرؔ کی نثری تصانیف بہت کم ہیں مگر جو ہیں ان میں تنوع ہے اور وہ اچھی نثر کا نمونہ ہیں۔