اکثر چپ چاپ رات کو

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
کتنے ہی دکھ ہیں چھوٹے چھوٹے
جنہیں بھولنے کے لیئے
اکثر چپ چاپ رات کو
اپنا تکیہ بگھونا پڑتا ہے

کتنی ہی ایسی یادیں ہیں
جنہیں یاد کرتے ہی
اکثر چپ چاپ رات کو
برف سا گھلنا پڑتا ہے

کتنی ہی ایسے رشتے ہیں
جن کی بے رخی سہتے سہتے
اکثر چپ چاپ رات کو
درد میں ڈھلنا پڑتا ہے

کتنی ہی ایسی یادیں ہیں
ان یادوں سے سلگھتے ہوئے
اکثر چپ چاپ رات کو
رو رو بہلنا پڑتا ہے

کتنے ہی ایسے ارادے ہیں
جو تنہا میں نے باندھے ہیں
ان ارادوں کو پورا کرنے کے لیئے
اکثر چپ چاپ رات کو
سوچوں میں چلنا پڑتا ہے

کتنی ہی ایسی چاہتیں ہیں
ان چاہتوںکو نبھانے کے لیئے
لفظوں کو جوڑنا پڑتا ہے
اور خود کو توڑنا پڑتا ہے
کبھی یادوں سے بہلنا پڑتا ہے
کبھی یادوں سے لڑنا پڑتا ہے
اکثر چپ چاپ رات کو
تکیہ بگھونا پڑتا ہے
 
Top