اک بےنام اذیت

میں مستقبل کے تصور سے ہراساں ہوں
مجھے گزرے ہوئے ایام سے نفرت ہے
شرمندہ ہوں اپنی بے کار تمنائوں پہ
ندامت ہے مجھے بے سود امیدوں پہ
سہارا لے کر بے کار امیدوں کا
خواب سجائے تھے تمہارے خاطر
بےربط تمنائوں کے مبہم خاکے
خوابوں میں بسائے تھے تمہارے خاطر
زندگی بےکار سہی‘ عشق ناکام سہی
میری ذلت کے سوا کچھ بھی نہیں
میری کاوش کا صلہ‘ امیدوں کا حاصل
اک بےنام اذیت کے سوا کچھ بھی نہیں
 
Top