انیس فاروقی
محفلین
اِس دشتِ وفا میں تِرے آلام ہے کیسا
مسند سرِ مقتل ہو تو آرام ہے کیسا
جب خود ہی محبت کے بھرم توڑ دئے تھے
پھر اُن کی نگاہوں میں یہ پیغام ہے کیسا
رکھ کر سرِ نیزہ مرا سَر پوچھ رہے ہیں
اِس شہرِ غریباں میں یہ ہنگام ہے کیسا
سادہ ہے تری یاد سے یہ تختی ء دل بھی
ہر دم یہ زباں پر مری اک نام ہے کیسا
ہے میرے سُخن میں تِرے انداز کی خوشبو
ہم پر یہ انیس اِک نیا الزام ہے کیسا
مسند سرِ مقتل ہو تو آرام ہے کیسا
جب خود ہی محبت کے بھرم توڑ دئے تھے
پھر اُن کی نگاہوں میں یہ پیغام ہے کیسا
رکھ کر سرِ نیزہ مرا سَر پوچھ رہے ہیں
اِس شہرِ غریباں میں یہ ہنگام ہے کیسا
سادہ ہے تری یاد سے یہ تختی ء دل بھی
ہر دم یہ زباں پر مری اک نام ہے کیسا
ہے میرے سُخن میں تِرے انداز کی خوشبو
ہم پر یہ انیس اِک نیا الزام ہے کیسا