محمد شکیل خورشید
محفلین
خواہشِ واہ واہ کس کو ہے
فقر میں فکرِ جاہ کس کو ہے
سانس لینا تو جبرِ قدرت ہے
ورنہ جینے کی چاہ کس کو ہے
ایک مسکان ظاہری سی بس
ورنہ دکھ سے پناہ کس کو ہے
کفر ہے نا امیدی سچ لیکن
آخر اس کا گناہ کس کو ہے
اک جلی لاش سینکڑوں کا ہجوم
جانے یہ انتباہ کس کو ہے
اک اندھیرا ہے چار سمت شکیل
سوجھتی اس میں راہ کس کو ہے
محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن
و دیگر اساتذہ اور احباب کی خدمت میں
فقر میں فکرِ جاہ کس کو ہے
سانس لینا تو جبرِ قدرت ہے
ورنہ جینے کی چاہ کس کو ہے
ایک مسکان ظاہری سی بس
ورنہ دکھ سے پناہ کس کو ہے
کفر ہے نا امیدی سچ لیکن
آخر اس کا گناہ کس کو ہے
اک جلی لاش سینکڑوں کا ہجوم
جانے یہ انتباہ کس کو ہے
اک اندھیرا ہے چار سمت شکیل
سوجھتی اس میں راہ کس کو ہے
محترم الف عین
محترم محمد خلیل الرحمٰن
و دیگر اساتذہ اور احباب کی خدمت میں
آخری تدوین: