اک حسن کی مورت کا اک دل ہے صنم خانہ

عاطف ملک

محفلین
محفل میں آنے جانے کے بہانے کے طور پر ایک کاوش محفلین کی خدمت میں پیش ہے۔شاید ایک آدھ شعر کسی کو پسند آجائے۔بہتری کیلیے کوئی صلاح ہو تو ضرور دیجیے گا۔

اک حسن کی مورت کا اک دل ہے صنم خانہ
اتنی سی کہانی ہے اتنا سا ہے افسانہ

سب ہی سے تعلق ہے میرا تو رقیبانہ
ہر ایک ترا عاشق ہر اک ترا دیوانہ

ان مست نگاہوں سے اک بار پیا جس نے
کیا جام و سُبُو اس کو کیا اس کو ہو مے خانہ

سینے میں چھپایا ہے، ہونٹوں سے لگایا ہے
خارِ رہِ جانانہ، سنگِ در جانانہ

ہر سَمت تجھے ڈھونڈوں ہر اک سے ترا پوچھوں
پھر کیوں نہ کہے دنیا مجھ کو ترا دیوانہ

وہ صرف مِرا ہے اور میں صرف اسی کا ہوں
عاشق کے لبوں پر ہے یہ نعرۂِ مستانہ

اس چشمِ فسوں نے یوں مسحور کیا مجھ کو
ہر اک سے ہوں برگشتہ خود سے بھی ہوں بے گانہ

وہ خسروئے اعلیٰ ہے اقلیمِ محبت کا
کیونکر نہ ادائیں بھی پھر اس کی ہوں شاہانہ

گلشن میں گلِ رعنا لاکھوں ہیں مگر عاطفؔ
اس رشکِ بہاراں کا ہے رنگ جداگانہ

عاطفؔ ملک
جولائی ۲۰۲۰
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
محفل میں آنے جانے کے بہانے کے طور پر ایک کاوش محفلین کی خدمت میں پیش ہے۔شاید ایک آدھ شعر کسی کو پسند آجائے۔بہتری کیلیے کوئی صلاح ہو تو ضرور دیجیے گا۔

اک حسن کی مورت کا اک دل ہے صنم خانہ
اتنی سی کہانی ہے اتنا سا ہے افسانہ

سب سے ہی تعلق ہے میرا تو رقیبانہ
ہر ایک ترا عاشق ہر اک ترا دیوانہ

ان مست نگاہوں سے اک بار پیا جس نے
کیا جام و سُبُو اس کو کیا اس کو ہو مے خانہ

سینے میں چھپایا ہے، ہونٹوں سے لگایا ہے
خارِ رہِ جانانہ، سنگِ در جانانہ

ہر سَمت تجھے ڈھونڈوں ہر اک سے ترا پوچھوں
پھر کیوں نہ کہے دنیا مجھ کو ترا دیوانہ

وہ صرف مِرا ہے اور میں صرف اسی کا ہوں
عاشق کے لبوں پر ہے یہ نعرۂِ مستانہ

اس چشمِ فسوں نے یوں مسحور کیا مجھ کو
ہر اک سے ہوں برگشتہ خود سے بھی ہوں بے گانہ

وہ خسروئے اعلیٰ ہے اقلیمِ محبت کا
کیونکر نہ ادائیں بھی پھر اس کی ہوں شاہانہ

گلشن میں گلِ رعنا لاکھوں ہیں مگر عاطفؔ
اس رشکِ بہاراں کا ہے رنگ جداگانہ

عاطفؔ ملک
جولائی ۲۰۲۰
تمام اشعار ہی خوبصورت ہیں ، عجب رنگ لیے ہے یہ غزل
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
اک حسن کی مورت کا اک دل ہے صنم خانہ
اتنی سی کہانی ہے اتنا سا ہے افسانہ

سب ہی سے تعلق ہے میرا تو رقیبانہ
ہر ایک ترا عاشق ہر اک ترا دیوانہ

ان مست نگاہوں سے اک بار پیا جس نے
کیا جام و سُبُو اس کو کیا اس کو ہو مے خانہ

سینے میں چھپایا ہے، ہونٹوں سے لگایا ہے
خارِ رہِ جانانہ، سنگِ در جانانہ

ہر سَمت تجھے ڈھونڈوں ہر اک سے ترا پوچھوں
پھر کیوں نہ کہے دنیا مجھ کو ترا دیوانہ

وہ صرف مِرا ہے اور میں صرف اسی کا ہوں
عاشق کے لبوں پر ہے یہ نعرۂِ مستانہ

اس چشمِ فسوں نے یوں مسحور کیا مجھ کو
ہر اک سے ہوں برگشتہ خود سے بھی ہوں بے گانہ

وہ خسروئے اعلیٰ ہے اقلیمِ محبت کا
کیونکر نہ ادائیں بھی پھر اس کی ہوں شاہانہ

گلشن میں گلِ رعنا لاکھوں ہیں مگر عاطفؔ
اس رشکِ بہاراں کا ہے رنگ جداگانہ
کیا کہنے عاطف بھائی۔ خوب غزل کہی ہے۔ماشااللہ۔
 

عاطف ملک

محفلین
تمام اشعار ہی خوبصورت ہیں ، عجب رنگ لیے ہے یہ غزل
بہت شکریہ
واہ بھیا کیا رنگ جمایا ہے
بہت عمدہ اور اعلی اشعار
زبردست غزل
نوازش عدنان بھائی۔۔۔۔آپ ہمیشہ ہی ایسی محبت بھری پذیرائی سے نوازتے ہیں
کیا کہنے عاطف بھائی۔ خوب غزل کہی ہے۔ماشااللہ۔
بہت شکریہ بھیا
خوب غزل ۔ ۔ ۔ ۔ ماشااللہ
بہت نوازش
 

Faizan ahmed

محفلین
محفل میں آنے جانے کے بہانے کے طور پر ایک کاوش محفلین کی خدمت میں پیش ہے۔شاید ایک آدھ شعر کسی کو پسند آجائے۔بہتری کیلیے کوئی صلاح ہو تو ضرور دیجیے گا۔

اک حسن کی مورت کا اک دل ہے صنم خانہ
اتنی سی کہانی ہے اتنا سا ہے افسانہ

سب ہی سے تعلق ہے میرا تو رقیبانہ
ہر ایک ترا عاشق ہر اک ترا دیوانہ

ان مست نگاہوں سے اک بار پیا جس نے
کیا جام و سُبُو اس کو کیا اس کو ہو مے خانہ

سینے میں چھپایا ہے، ہونٹوں سے لگایا ہے
خارِ رہِ جانانہ، سنگِ در جانانہ

ہر سَمت تجھے ڈھونڈوں ہر اک سے ترا پوچھوں
پھر کیوں نہ کہے دنیا مجھ کو ترا دیوانہ

وہ صرف مِرا ہے اور میں صرف اسی کا ہوں
عاشق کے لبوں پر ہے یہ نعرۂِ مستانہ

اس چشمِ فسوں نے یوں مسحور کیا مجھ کو
ہر اک سے ہوں برگشتہ خود سے بھی ہوں بے گانہ

وہ خسروئے اعلیٰ ہے اقلیمِ محبت کا
کیونکر نہ ادائیں بھی پھر اس کی ہوں شاہانہ

گلشن میں گلِ رعنا لاکھوں ہیں مگر عاطفؔ
اس رشکِ بہاراں کا ہے رنگ جداگانہ

عاطفؔ ملک
جولائی ۲۰۲۰
کیا کہنے
خوبصورت غزل
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ! بہت خوب! ایک اور اچھی غزل ، عاطف !
مطلع اورآخری دو اشعار اچھے ہیں ۔

عاطف بھائی ، ایک شعر میں آپ نے چشمِ فسوں کی ترکیب استعمال کی ہے ، یہ درست نہیں ۔ چشمِ فسوں ساز یا فسوں گر وغیرہ تو ٹھیک ہوگا لیکن چشمِ فسوں نہیں ۔ اس بارے میں کچھ دنوں پہلے کسی جگہ مفصل لکھا تھا ۔ اب یاد نہیں کہ کونسا دھاگا تھا ۔ اگر آپ تفصیل دیکھنا چاہیں تو ذرا سی تلاش پر مل جائے گا ۔
 

عاطف ملک

محفلین
کیا کہنے
خوبصورت غزل
بہت شکریہ
واہ! بہت خوب! ایک اور اچھی غزل ، عاطف !
مطلع اورآخری دو اشعار اچھے ہیں ۔
بہت شکریہ ظہیر بھائی
عاطف بھائی ، ایک شعر میں آپ نے چشمِ فسوں کی ترکیب استعمال کی ہے ، یہ درست نہیں ۔ چشمِ فسوں ساز یا فسوں گر وغیرہ تو ٹھیک ہوگا لیکن چشمِ فسوں نہیں ۔ اس بارے میں کچھ دنوں پہلے کسی جگہ مفصل لکھا تھا ۔ اب یاد نہیں کہ کونسا دھاگا تھا ۔ اگر آپ تفصیل دیکھنا چاہیں تو ذرا سی تلاش پر مل جائے گا ۔
اس پہ احباب سے گفتگو ہوئی تھی۔اور مصرع بدل بھی دیا تھا۔لیکن شاید یہاں پرانا والا ہی رہ گیا۔اس کو یوں کر دیا تھا۔
اس چشمِ فسوں گر نے مسحور کیا ایسا
مدیران سے گذارش ہے کہ اس کی تدوین کردیں۔
 
Top