محمداحمد
لائبریرین
غزل
اک سزا اور اسیروں کو سنا دی جائے
یعنی اب جرمِ اسیری کی سزا دی جائے
دستِ نادیدہ کی تحقیق ضروری ہے مگر
پہلے جو آگ لگی ہے وہ بجھا دی جائے
اُس کی خواہش ہے کہ اب لوگ نہ روئیں نہ ہنسیں
بے حسی وقت کی آواز بنادی جائے
صرف سورج کا نکلنا ہے اگر صبح تو پھر
ایک شب اور مری شب سے ملا دی جائے
شرط اب یہ تو نہیں دل سے بھی دل ملتے ہوں
صرف آواز میں آواز ملا دی جائے
بے ضرورت ہو ملاقات ضروری تو نہیں
بزم کے ساتھ ہی یہ رسم اُٹھا دی جائے
صرف جلناہی نہیں ہم کو بھڑکنا بھی ہے
عشق کی آگ کو لازم ہے ہوا دی جائے
اور اک تازہ ستم اُس نے کیا ہے ایجاد
اُس کو اِس بار ذرا کھل کے دعا دی جائے
پیرزادہ قاسم
اک سزا اور اسیروں کو سنا دی جائے
یعنی اب جرمِ اسیری کی سزا دی جائے
دستِ نادیدہ کی تحقیق ضروری ہے مگر
پہلے جو آگ لگی ہے وہ بجھا دی جائے
اُس کی خواہش ہے کہ اب لوگ نہ روئیں نہ ہنسیں
بے حسی وقت کی آواز بنادی جائے
صرف سورج کا نکلنا ہے اگر صبح تو پھر
ایک شب اور مری شب سے ملا دی جائے
شرط اب یہ تو نہیں دل سے بھی دل ملتے ہوں
صرف آواز میں آواز ملا دی جائے
بے ضرورت ہو ملاقات ضروری تو نہیں
بزم کے ساتھ ہی یہ رسم اُٹھا دی جائے
صرف جلناہی نہیں ہم کو بھڑکنا بھی ہے
عشق کی آگ کو لازم ہے ہوا دی جائے
اور اک تازہ ستم اُس نے کیا ہے ایجاد
اُس کو اِس بار ذرا کھل کے دعا دی جائے
پیرزادہ قاسم