اک شاخ ِ محبت سے لپٹا ہوا پتہ ہوں

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اک شاخ ِ محبت سے لپٹا ہوا پتہ ہوں
پت جھڑ ہے مگر پیڑ پہ ٹھہرا ہوا پتہ ہوں

کھو بیٹھا ہوں رنگ اپنا میں گرد ِ زمانہ میں
بارش کی عنایت کو ترسا ہوا پتہ ہوں

دیتا ہوں خبر تم کو موجوں کے تلاطم کی
چلتے ہوئے پانی پر بہتا ہوا پتہ ہوں

ہے دوسرے پتوں کے ہاتھوں میں مری تقدیر
میں تاش کی بازی میں کھیلا ہوا پتہ ہوں

گلدان کی زینت ہوں رنگوں کی نمائش میں
کچھ کاغذی پھولوں میں اُ لجھا ہوا پتہ ہوں

خوشبو مری اپنی نہیں ، فیضان ہے صحبت کا
ٹہنی سے گلابوں کی ٹوٹا ہوا پتہ ہوں

تصویر کی صورت مجھے تم رکھنا کتابوں میں
موسم کی لکیروں سے لکھا ہوا پتہ ہوں


ظہیر احمد ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰۱

(ان قوافی کے استعمال پر اہلِ علم سے معذرت ۔ کچھ علمائے فن نے اس قسم کے قافیے کو جائز قرار دیا ہے ۔ میں اس غزل کو ترک کرچکا تھا مگر کچھ دوستوں کے کہنے پر اسے باقی رکھا ہے اور یہاں پیش کر رہا ہوں ۔ )
 
بہت خوب ظہیر بھائی۔
کھو بیٹھا ہوں رنگ اپنا میں گرد ِ زمانہ میں
بارش کی عنایت کو ترسا ہوا پتہ ہوں

گلدان کی زینت ہوں رنگوں کی نمائش میں
کچھ کاغذی پھولوں میں اُ لجھا ہوا پتہ ہوں

خوشبو مری اپنی نہیں ، فیضان ہے صحبت کا
ٹہنی سے گلابوں کی ٹوٹا ہوا پتہ ہوں

تصویر کی صورت مجھے تم رکھنا کتابوں میں
موسم کی لکیروں سے لکھا ہوا پتہ ہوں

قوافی کی باریکیوں سے ہمیں کیا غرض۔ ہمیں تو اشعار نے مزا دیا۔ شکریہ ان دوستوں کا، کہ جن کے کہنے پر برقرار رکھی۔ :)
 

الف عین

لائبریرین
قوافی میں کیا اعتراض تھا لوگوں کو؟ درست ہیں قوافی۔ اچھی غزل ہے۔ مگر اس مصرع کی تقطیع کریں۔
پت جھڑ ہے مگر پیڑ پہ ٹھہرا ہوا پتہ ہوں
اسی طرح مفعول مفاعیلن تقطیع کرنے پر کچھ حروف گرانے پڑتے ہیں، جو اچھے نہیں لگتے۔ جیسے
تصویر کی صورت مجھے تم رکھنا کتابوں میں
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اچھی غزل ہے۔ مگر اس مصرع کی تقطیع کریں۔
پت جھڑ ہے مگر پیڑ پہ ٹھہرا ہوا پتہ ہوں

محترمی اعجاز بھائی ۔ دست بستہ عرض ہے کہ اس غزل میں وزن کی کوئی غلطی نہیں ہے۔ آپ اس مصرع کو مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن پر تقطیع کر رہے ہیں جبکہ اس کا وزن مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیلن ہے ۔
مفعول ۔ مفاعیل ۔ مفاعیل ۔مفاعیلن
پت جڑ ہ ۔مگر پیڑ ۔پ ٹہرا ہ ۔ وپتہ ہو


اسی طرح مفعول مفاعیلن تقطیع کرنے پر کچھ حروف گرانے پڑتے ہیں، جو اچھے نہیں لگتے۔ جیسے
تصویر کی صورت مجھے تم رکھنا کتابوں میں

اس طرح اس مصرع کا وزن بھی مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیلن ہے ۔ اعجاز بھائی میں بصد ادب و احترام آپ کی توجہ اس امر کی طرف دلاؤں گا کہ مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیلن (ہزج مثمن اخرب مکفوف سالم) اور مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن (ہزج مثمن اخرب سالم ) بنیادی طور پر دونوں ایک ہی وزن ہیں اور ان دو اوزان کا ایک شعر میں جمع کرنا درست ہے ۔ یہ دوسرا وزن دراصل پہلے وزن کے حشوین (مفاعیل مفاعیل) کے درمیان تسکینِ اوسط کے استعمال سے نکلتا ہے ۔ اسی نوعیت کا ایک سوال حال ہی کسی اور جگہ بھی کیا گیا تھا ۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو مزید وضاحت کے لئے اس غزل کو بھی دیکھ لیں ۔

قوافی میں کیا اعتراض تھا لوگوں کو؟ درست ہیں قوافی۔


محترمی اعجاز بھائی ، افعال کے ایسےقوافی پر تو تقریبا تمام عروضی علمائے فن کو اعتراض رہا ہے ۔ اور معتبر و مستند کتب قوافی میں ان کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ اساتذہ کے ہاں بھی ان کے استعمال کی کوئی مثال نہیں ۔ چنانچہ میں خود بھی مطمئن نہیں ہوں ۔ لیکن چراغِ سخن میں مرزا یاس نے اس طرح کے قوافی کو جائز کہا ہے اور ان کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی ہے ۔ اس پر مزید گفتگو کے لئے اگر آپ صاحبان چاہیں تو یہ لڑیاں بھی ملاحظہ کرسکتے ہیں ۔ پچھلے دو سالوں سے مین قافیے پر کچھ تحقیقی کام کرر ہا ہوں ۔ کچھ اصلاحات تجویز کرنے کا ارادہ ہے ۔ روایتی اصولِ قافیہ سے ہٹ کر کچھ نئے ضوابط تجویز کرنے کا ارادہ ہے ۔ لیکن یہ کام محنت طلب بھی ہے اور ماخذات ڈھونڈنے اور دیکھنے کا وقت بھی نہیں ملتا ۔ ہوسکتا ہے ریٹائرمنٹ تک مضمون مکمل ہوجائے ۔ :):):)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب ظہیر بھائی۔
قوافی کی باریکیوں سے ہمیں کیا غرض۔ ہمیں تو اشعار نے مزا دیا۔ شکریہ ان دوستوں کا، کہ جن کے کہنے پر برقرار رکھی۔ :)
بہت بہت شکریہ تابش بھائی ! قوافی کا اتنا بڑا مسئلہ بھی نہیں ہے۔ کچھ ماہرین انہیں درست بھی سمجھتے ہیں ۔ اور ویسے عوام الناس تو لکھ ہی رہے ہیں ایسے قوافی ۔ بس میں ہی ذرا روایت پرست واقع ہوا ہوں ۔ حالانکہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی ۔ :)
 
Top