ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
ایک غزل آپ احبابِ ذوق کی خدمت میں پیش کرتا ہوں - شاید آپ کو کچھ اشعار پسند آجائیں ۔
اپنی متاعِ خواب مرے نام کرگیا
اک شخص شہر ِ ہجر میں گمنام مرگیا
ترکِ جنون کرکے بیاباں سے گھر گیا
بازی نبردِ عشق کی دیوانہ ہر گیا
اِس رقص ِگردبادِ غم ِ روزگار میں
ہر جامہء لحاظ بدن سے اتر گیا
سورج کو سر پہ لاد کے دن بھر چلا تھا میں
اُس کو فصیلِ شام پہ چھوڑا تو گھر گیا
شاخِ گلاب شعلہء لرزاں لگی مجھے
پروردہء خزاں تھا بہاروں سے ڈر گیا
اک حرفِ بے شرف کہ کوئی بولتا نہ تھا
بولا گیا تو شہر صداؤں سے بھر گیا
ہر جوہر ِحیات ہوا صرفِ اندمال
اک زخم بھرتے بھرتے مرا کام کر گیا
قدموں سے راستے گئے رہبر کی آس میں
رہبر ملے تو ہاتھ سے رختِ سفر گیا
جرم ِوفائے یار کے مجرم بھی ہم ہوئے
الزامِ خود سری بھی ہمارے ہی سر گیا
در پر ترے جھکے تو زمانہ ہوا خلاف
چھوٹا سا ایک کام بڑا نام کر گیا
پھر سے زمین ہے کسی وارث کی منتظر
گرد و غبارِ وقت میں آدم بکھر گیا
ایسے ملے سرابِ مسلسل کہ اب ظہیرؔ
تشنہ لبی تو ہے مگر احساس مر گیا
٭٭٭
ظہیر ؔ احمد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 2014
اپنی متاعِ خواب مرے نام کرگیا
اک شخص شہر ِ ہجر میں گمنام مرگیا
ترکِ جنون کرکے بیاباں سے گھر گیا
بازی نبردِ عشق کی دیوانہ ہر گیا
اِس رقص ِگردبادِ غم ِ روزگار میں
ہر جامہء لحاظ بدن سے اتر گیا
سورج کو سر پہ لاد کے دن بھر چلا تھا میں
اُس کو فصیلِ شام پہ چھوڑا تو گھر گیا
شاخِ گلاب شعلہء لرزاں لگی مجھے
پروردہء خزاں تھا بہاروں سے ڈر گیا
اک حرفِ بے شرف کہ کوئی بولتا نہ تھا
بولا گیا تو شہر صداؤں سے بھر گیا
ہر جوہر ِحیات ہوا صرفِ اندمال
اک زخم بھرتے بھرتے مرا کام کر گیا
قدموں سے راستے گئے رہبر کی آس میں
رہبر ملے تو ہاتھ سے رختِ سفر گیا
جرم ِوفائے یار کے مجرم بھی ہم ہوئے
الزامِ خود سری بھی ہمارے ہی سر گیا
در پر ترے جھکے تو زمانہ ہوا خلاف
چھوٹا سا ایک کام بڑا نام کر گیا
پھر سے زمین ہے کسی وارث کی منتظر
گرد و غبارِ وقت میں آدم بکھر گیا
ایسے ملے سرابِ مسلسل کہ اب ظہیرؔ
تشنہ لبی تو ہے مگر احساس مر گیا
٭٭٭
ظہیر ؔ احمد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 2014