اک انسان
محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جب کسی ”ایک“ کے چاہنے والوں کی تعداد ایک سے زیادہ ہوجائے تو لازماً اُن چاہنے والوں کے درمیان بھی ایک رشتہ قائم ہو جاتا ہے.... رقابت‘ حسد‘جلن۔ ہر چاہنے والے کا گمان ہوتا ہے کہ بس اُس کی چاہت ہی اصل ہے‘ وہ ایسا ہر کام کرتا ہے جس سے محبوب کو اپنی طرف متوجہ کرسکے اور جب محبوب شانِ بے نیازی کا مالک ہو تو پھر وہ اپنے محبوب کے چاہنے والے دوسرے محب سے اُلجھتا رہتا ہے‘ وہ اُسے جتلاتا رہتا ہے کہ اُسی کی چاہت اصل اور اٹل ہے‘ جس طرح وہ چاہتا ہے کوئی دوسرا نہیں چاہ سکتا‘ اُس کی محبت لازوال ہے۔ شائد محبوں کا اس طرح آپس میں اُلجھنا بھی محبوب کو پسند آتا ہو!! شائد اُس محبوب کو اس بات پر بھی پیار آتا ہو کہ یہ میری چاہت میں سبقت لے جانے کیلئے‘ اپنی محبت کے اظہار کیلئے آپس میں اُلجھ رہے ہیں۔ لیکن ایسے اُلجھتے رہنے سے کیا بات بن سکتی ہے؟ سب کچھ کرلینے کے باوجود بھی ہم محتاج ہی رہتے ہیں کہ ”محبوب کیا چاہتا ہے؟“ محبتوں میں وقار نہیں کھونا چاہئے!! ہم آپس میں چاہے اُلجھ پڑیں مگر محبوب کا گریبان پکڑ کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ میری محبت اصل ہے‘ تیرا فرض ہے کہ تو بھی مجھے ہی چاہے!! جب مسلمان اپنی محبتوں اور چاہتوں پر دوسرے مسلمانوں سے اُلجھتے ہیں تو مجھے بعض اوقات اچھا لگتا ہے!! دنیا شائد یہ گمان کرے کہ یہ لوگ آپس میں لڑتے ہیں‘ مگر میرے نزدیک یہ سب محبتوں کا کھیل ہے۔ کبھی اللہ کے نام پر اور کبھی اُس کے رسول کے نام پر.... جھگڑا نہیں ہے!! اپنی اپنی محبتوں کا اظہار ہے کہ ہم زیادہ چاہتے ہیں!! مختلف مکاتب فکر جب ایک دوسرے سے کسی بات پر اُلجھ پڑتے ہیں تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے وہ کہہ رہے ہوں میری محبت اصل ہے‘ جیسے میں چاہتا ہوں ویسے تو نہیں چاہ سکتا‘ لیکن.... محبتوں میں وقار نہیں کھونا چاہئے!! آپس میں اُلجھنا شائد ٹھیک ہوسکتا ہے لیکن محبوب کو محبت جتلانا؟؟ اُس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ صرف اور صرف ہمیں چاہے؟؟ رب العالمین کو یہ کہنا کہ صرف میری محبت اصل ہے‘ میں سب سے افضل ہوں تو بھی بس مجھ سے پیار کر؟؟ ہم بس محبت کرسکتے ہیں‘ اُسے جتلا نہیں سکتے کیوں کہ شیطان نے بھی تو یہی کیا تھا!! ”میں اس خاکی سے بہتر ہوں“ یہی تو مطلب تھا کہ مجھ پر کسی کو فضیلت نہ دے!! .... محبت کرو ‘ ایک سے ہی کرو کہ اُس جیسا کوئی ایک بھی نہیں‘ بس خیال رہے کہ شرک نہ کرنا!! اور اپنی محبتوں میں اپنے جیسے محبوں کو ساتھ ملا لو کہ تمہارے جیسوں کی مشترکہ محبت شرک نہیں ہوتی!! چاہنے کے انداز الگ الگ ہوسکتے ہیں‘ چاہتوں کا معیار کم زیادہ ہوسکتا ہے‘ مگر چاہت صرف ایک کیلئے ہے!!
ایک بار کسی شخص نے صاحبِ علم و عرفان سے دریافت کیا کہ ”شرک کیا ہے؟“ آپ نے سامنے پڑی کھجور کی گھٹلی اُٹھا کر اُسے دکھائی اور فرمایا ”اسے کنکر کہہ دینا!!“ .... یہ تو سن رکھا ہوگا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا شرک ہے‘ مگر ذرا غور فرمایئے کہ کتنی چھوٹی سی بات میں کتنا بڑا فلسفہ سمجھا دیا گیا ہے۔ کھجور کی گھٹلی کو کنکر کہہ دینا شرک ہے!!کیوں؟؟ اس لئے کہ ”حقیقت سے انحراف کا نام شرک ہے!!“ اصل سے نظریں چرا لینا شرک ہے‘ جو جیسا نہیں ہے اُسے ویسا کہہ دینا اور سمجھ لینا شرک ہے!! سمندر کو کوزئے میں بند کردینا اسی کو کہتے ہیں....!! آیئے اب اس چھوٹی سی مثال اور اس بڑے سے فلسفے کو ساتھ ساتھ لےکر چلتے ہیں۔
آپ بیمار ہوئے.... ڈاکٹر کے پاس اس نیت سے گئے کہ یہ اچھا ڈاکٹر ہے اس سے علاج کرواﺅں گا تو میں ٹھیک ہو جاﺅں گا....شرک !! کیوں؟ اس لئے کہ شفاء منجانب اللہ ہے طبیب تو فقط وسیلہ ہے۔ اگر حقیقت سے انحراف کیا اور ڈاکٹر کو ہی شفا دینے والا سمجھ لیا تو شرک کیا!!۔ اب ذرا اس مثال کو اُلٹ کر دیکھئے۔ آپ بیمار ہوئے آپ نے ”حقیقت“ کو مد نظر رکھا کہ شفاء دینے والا اللہ ہے اسلئے آپ ڈاکٹر کے پاس نہیں گئے ....شرک!! سوچنے والی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ پر اتنا ”ایمان“ رکھا کہ شفاء دینے والی اُسی کی ذات ہے تو پھر شرک کیسے؟؟ اس لئے کہ حقیقتوں میں سے ایک کو رکھ کر دوسری کو جھٹلا دیا!! شفاء دینے والا بے شک اللہ ہے لیکن طبیب کو وسیلہ بنانے والا بھی وہی رب ہے!! کیا یہ رب کی نافرمانی نہیں؟؟ کیا یہ اُس حقیقت سے انکار نہیں؟؟
ایک اور مثال لیجئے.... ہمارے رزق کا ذمہ دار خالق ہے‘ اُس نے جتنا جہاں جیسے لکھا ہے ہمیں اُتنا ہی ملے گا‘ دانے دانے پر لکھا ہے کھانے والے کا نام‘ وہ چاہے تو پتھر میں کیڑے کو کھلائے۔ تو پھر یہ بھاگ دوڑ کیسی؟؟ کہیں یہ شرک تو نہیں کہ رزق کا ذمہ اُس نے لے رکھا ہے لیکن ہم اُس کے پیچھے بھاگ رہے ہیں؟؟ پتھر میں کیڑا کھا سکتا ہے تو ہمارا خالق ہم تک رزق خود کیوں نہیں پہنچا سکتا؟؟ کیا ہم حقیقت کو جھٹلا رہے ہیں؟؟ فرض کیجئے کہ ہم سکون سے اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ گئے تو کیا ہم نے ایسا کرکے بھی شرک نہیں کیا؟؟ اُس نے پاﺅں دیئے ہم نے حقیقت کو جھٹلا کر اُن کا استعمال نہیں کیا‘ اُس نے ہاتھ دیئے ہم نے حقیقت کو جھٹلا کر اُن سے کام نہیں لیا!! اس بات پر کیسے یقین رکھا جائے کہ رزق کا ذمہ دار خالق ہے جبکہ بھاگ دوڑ بھی ہم نے ہی کرنی ہے؟ وہ کیسا رزاق ہے؟ .... جب تم گندم کا دانہ زمین میں بوتے ہو تو تمہارا رب پر یقین ہوتا ہے اور بے شک وہی رب ہے جو نرم و نازک کونپلوں کو زمین کا سینہ چیر کر باہر نکال دیتا ہے اور خوشے خوشے کو سنہرے دانوں سے بھر دیتا ہے، یہ ہے اُس کی ذمہ داری!! اُس کے بعد تمہاری ذمہ داری ہے کہ قدم بڑھا کر ہاتھوں کا استعمال کرکے وہ خوشے توڑو اور اُنہیں استعمال کرو!!۔ وہ سورج کو حکم دیتا ہے تو وہ اپنی تمازت سمندر پر اس انداز سے پھینکتا ہے کہ سمندر کی ساری کثافتیں اُسی میں رہ جاتی ہیں اور صاف شفاف پانی بخارات کی شکل میں اُڑتا ہوا ایک خاص مقام پر جا کر جمع ہو کر بادلوں کی شکل اختیار کرلیتا ہے‘ پھر خالق کا حکم ہوتا ہے تو ہوائیں اُسے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتی ہیں اور اُس کے حکم پر وہ بادل کسی خاص جگہ اپنا دامن جھاڑ دیتے ہیں.... یہ ہے رزاق کا کام!! اب یہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ اُس پانی کی نہر کا رُخ اپنے گھروں کی طرف موڑ کر اُسے استعمال کرو!! اُس کے بنائے ہوئے سسٹم کو جھٹلا سکتے ہو؟؟ کیا یہ چاہتے ہو کہ بادلوں کے ٹکڑے تمہارے گھروں پر بنی ٹنکیوں پر برسیں؟؟ لاریب کہ وہ جو چاہے کرسکتا ہے‘ مگر اُس خالق کے ہی بنائے ہوئے سسٹم سے نکل کر اُس کی حقیقت کو جھٹلا دینا.... شرک ہے!!
کسی مزار پر کھڑے ہو کر ”مردے“ سے کچھ مانگنا شرک ہے!!.... شہیدوں کو مردہ کہہ دینا بھی شرک!! اللہ تعالیٰ سے حاجت روائی کی بجائے کسی بندے سے مدد مانگنا شرک ہے!!.... اور اگر اُس نے کسی کو حاجت روائی کیلئے مقرر کر رکھا ہو تو اُس کا در چھوڑ دینا بھی شرک!!.... حقیقت سے انکار‘ نظریں چرا لینا‘ جو جیسا ہے اُسے ویسا نہ سمجھنا!! اس کائنات کا ذرہ ذرہ اُس کی تخلیق ہے‘ اُس کی تخلیق کو ویسا نہیں مانو جیسا اُس نے خلق کیا ہے تو واضح الفاظ میں اُسے شرک کہا جاتا ہے۔
ہم جو ”سجدہ“ کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کیلئے ہے یا کعبة اللہ کیلئے؟؟ مجھے علم ہے کہ یہ نہایت ہی احمقانہ سوال ہے!! سجدہ صرف اور صرف اُس پاک ذات کیلئے ہے.... اچھا جب سجدہ صرف اُس ذات کو ہے تو ذرا کعبے کی طرف پیٹھ کر کے سجدہ تو کرکے دکھانا!! دین و ایمان کی سلامتی کی گارنٹی میں نہیں دیتا!! جس کو سجدہ ہے اُسی کا حکم ہے کہ رخ کعبے کی طرف ہو!! کبھی سوچا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے تو اُس نے سجدے کا رُخ متعین کرنے کیلئے ایک خاص جگہ کیوں مخصوص کی؟ ساری زمین اُس کی‘ کون و مکاں اُس کے‘ کائنات اُس کی‘ ذرہ ذرہ اُس کا پھر کیوں؟؟ اسلئے کہ وہ تم سے زیادہ تمہیں جانتا ہے!! اگر تمہارا مرکز نہ بناتا تو آج تمہارے گھر گھر میں ”کعبے“ بنے ہوئے ہوتے!! اُسے ضرورت نہیں تھی اُس گھر کی‘ تمہاری ضرورت تھی‘ احسان کیا ہے تم پر!! اس وقت جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں اور جب تم اسے پڑھو گے کیا تم بتا سکتے ہو اس وقت تمہارا رب تم سے کتنی دور ہے؟؟ابھی بھی رگِ جاں سے زیادہ نزدیک ہے!! اتنا قریب کہ ”چھونے“ کی دوری بھی نہیں رکھی!! فرض کرو تمہیں کسی بچے پر پیار آتا ہے‘ تم اُسے خود سے کتنا قریب کرسکتے ہو؟؟ سینے سی بھینچ بھی لو تو اُسے چھو کر احساس ہوجاتا ہے کہ وہ کتنا دور ہے!! کیسا پاک ہے وہ پروردگار کہ اُس نے اتنی دوری بھی نہیں رکھی تم سے کہ چھو کر محسوس کرسکو کہ ابھی بھی دور ہے!! اور کیا کمال ہے اُس رب کا کہ تمہارے وجود سے اتنا الگ ہے کہ تم اُسے چھو بھی نہیں سکتے!! محسوس کرو.... اتنا قریب کے چھو بھی نہیں سکتے اور ذات سے اتنا دور کہ چھو بھی نہیں سکتے!! ایک ہی بات پلٹ پلٹ کر سوچو اور حیرت کے سمندر میں ڈوبتے چلے جاﺅ!! جب وہ ہر وقت ہر لمحہ اتنا قریب ہے تو کیا وجہ ہے کہ خانہ کعبہ میں جا کر آنکھیں نم ہوجاتی ہیں؟؟ ایک اور احمقانہ سوال پوچھنے کی جسارت چاہوں گا.... کیا وہاں زیادہ قریب ہوتا ہے؟؟ ....سوچو‘ غور کرو اور اس مسئلے کو حل کرو!! یہ تمہارے رب کا احسان ہے تم پر‘ تم سے زیادہ تمہیں جانتا ہے‘ یہ بھی جانتا ہے کہ تمہاری نظریں نظاروں تک محدود رہتی ہیں اور اسی لئے تمہاری فطرت کی اُس طلب کو بھڑک کر بہک جانے سے بچالیا اُس نے!! وہ محتاج نہیں سب تمہاری ضرورتیں ہیں....!!
شائد میں کچھ واضح کرسکا ہوں کہ ”شرک“ ہے کیا؟.... حقیقت کو جھٹلا دینا!! دوسروں کے ساتھ اُلجھنے سے پہلے خود کو سلجھاﺅ‘ غور کیا کرو چیزوں پر‘ قدرت پر اور اپنی فطرت پر.... ہر مسلمان صراطِ مستقیم پر چلنے کا آرزومند ہے مگر جانتے ہو صراطِ مستقیم ہے کیا؟؟ اس دنیا کے پل صراط کا نام ہے صراطِ مستقیم!! کبھی کسی مداری کو دیکھا ہے بلند عمارتوں کے درمیاں رسی پر چلتے ہوئے؟ کس طرح ہاتھوں سے توازن بنا کر سنبھل سنبھل کر چل رہا ہوتا ہے‘ اُسے اس بات سے کچھ غرض نہیں ہوتی کہ ”تماشہ“ دیکھنے والے گالیاں دے رہے ہیں یا داد!! تم کبھی ایسے وقت کھڑے ہو کر اُس پر ہوٹنگ کرکے دیکھنا اُس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا‘ وہ تمہیں پلٹ کر نہیں گھورے گا‘ کوئی جواب نہیں دیگا، کیوں؟ کیوں کہ اُس کی جان پر بنی ہوتی ہے‘ ایک ذرا سا غلط قدم کوئی لرزش اُسے کہیں کا نہیں چھوڑے گی!! تم بھلے چیخ چیخ کر اُس کی تعریفیں کررہے ہو مگر اُس کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں آئے گی.... جان پر بنی ہو تو کون دیکھتا ہے دوسروں کی طرف!!بس وہ نپے تلے قدم رکھ کر اپنی منزل تک پہنچنا چاہتا ہے....!!
لاعلمی نعمت قرار دی گئی ہے.... شکر کیا کرو اُس بات پر جسے تم نہیں جانتے‘ جان جاﺅ اور پھر بھی غلط قدم اُٹھاﺅ تو پکڑ سخت ہو جاتی ہے۔ اتنا آسان نہیں ہے‘ اتنی فرصت نہیں ہے کہ دوسروں کو اذیت دو!! ”علم“ حاصل کرنا ہے تو غور کیا کرو‘ چیزوں پر‘ قدرت پر‘ اپنی فطرت پر‘ علم جا بجا پھیلا ہے‘ تمہیں یہ معلوم ہونا علم نہیں کہ کشش ثقل نیوٹن نے دریافت کی‘ نیوٹن کا سیب گرنے کے بعد غور و فکر علم کہلاتا ہے!! حقیقت کھل کر سامنے آجائے تو زندگی پل صراط پر چلنے جیسی ہو جاتی ہے‘ اور نظریں نظاروں میں ہی گم رہیں تو کعبے کا طواف بھی شرک بن جاتا ہے....!!
آخر میں حضرت علی کا ایک خوبصورت قول بطور تحفہ....
”کارخانہ قدرت میں فکر کرنا بھی عبادت ہے....!!“
کبھی یوں بھی عبادت کیا کرو.... عجب لطف ہے اس کا!!