عمران شناور
محفلین
اک عجب کیفیتِ ہوش ربا طاری تھی
قریہء جاں میںکسی جشن کی تیاری تھی
سر جھکائے ہوئے مقتل میں کھڑے تھے جلاد
تختہء دار پہ لٹکی ہوئی خودداری تھی
خون ہی خون تھا دربار کی دیواروں پر
قابضِ تختِ وراثت کی ریاکاری تھی
ایک ساعت جو تری زلف کے سائے میں کٹی
ہجر بردوش زمانوں سے کہیں بھاری تھی
اور سب ٹھیک تھا بس ہم سے بھلائی نہ گئی
تیرے خاموش رویے میں جو بیزاری تھی
اک قیامت تھی کہ رسوا سرِ بازار تھے ہم
اور پھر اس کی وہ تشویش بھی بازاری تھی
تیرے محکوم ترے حاشیہ برداروں کی
صرف وردی ہی نہیں سوچ بھی سرکاری تھی
(سرور ارمان)
قریہء جاں میںکسی جشن کی تیاری تھی
سر جھکائے ہوئے مقتل میں کھڑے تھے جلاد
تختہء دار پہ لٹکی ہوئی خودداری تھی
خون ہی خون تھا دربار کی دیواروں پر
قابضِ تختِ وراثت کی ریاکاری تھی
ایک ساعت جو تری زلف کے سائے میں کٹی
ہجر بردوش زمانوں سے کہیں بھاری تھی
اور سب ٹھیک تھا بس ہم سے بھلائی نہ گئی
تیرے خاموش رویے میں جو بیزاری تھی
اک قیامت تھی کہ رسوا سرِ بازار تھے ہم
اور پھر اس کی وہ تشویش بھی بازاری تھی
تیرے محکوم ترے حاشیہ برداروں کی
صرف وردی ہی نہیں سوچ بھی سرکاری تھی
(سرور ارمان)