اک غزل اس پہ لکھوں دل کا تقاضا ہے بہت کرشن بہاری نور

سیما علی

لائبریرین
اک غزل اس پہ لکھوں دل کا تقاضا ہے بہت
ان دنوں خود سے بچھڑ جانے کا دھڑکا ہے بہت

رات ہو دن ہو کہ غفلت ہو کہ بیداری ہو
اس کو دیکھا تو نہیں ہے اسے سوچا ہے بہت

تشنگی کے بھی مقامات ہیں کیا کیا یعنی
کبھی دریا نہیں کافی کبھی قطرہ ہے بہت

میرے ہاتھوں کی لکیروں کے اضافے ہیں گواہ
میں نے پتھر کی طرح خود کو تراشا ہے بہت

کوئی آیا ہے ضرور اور یہاں ٹھہرا بھی ہے
گھر کی دہلیز پہ اے نورؔ اجالا ہے بہت
 
آخری تدوین:

ایس ایس ساگر

لائبریرین
تشنگی کے بھی مقامات ہیں کیا کیا یعنی
کبھی دریا نہیں کافی کبھی قطرہ ہے بہت
واہ۔ اچھا شعر ہے۔
مرے ہاتھوں کی لکیروں کے اضافے ہیں گواہ
میں نے پتھر کی طرح خود کو تراشا ہے بہت
کیا بات ہے۔ خوبصورت شعر۔
کوئی آیا ہے ضرور اور یہاں ٹھہرا بھی ہے
گھر کی دہلیز پہ اے نورؔ اجالا ہے بہت
عمدہ۔
ایک اچھی غزل شریکِ محفل کرنے پر بہت شکریہ آپا۔
 

زوجہ اظہر

محفلین
واہ بھئ خوب است
ایک وقت تھا کہ والد صاحب کے ساتھ بیٹھ کر وی سی آر پر مشاعرے سنے
کرشن بہاری نور سماں باندھ دیا کرتے تھے

کیا حسن ہے جمال ہے کیا رنگ و روپ ہے
وہ بھیڑ میں بھی جائے تو تنہا دکھائی دے
 

سیما علی

لائبریرین
واہ بھئ خوب است
ایک وقت تھا کہ والد صاحب کے ساتھ بیٹھ کر وی سی آر پر مشاعرے سنے
کرشن بہاری نور سماں باندھ دیا کرتے تھے

کیا حسن ہے جمال ہے کیا رنگ و روپ ہے
وہ بھیڑ میں بھی جائے تو تنہا دکھائی دے
بالکلُ درست ہمارے پاس ابھی بھی کیسٹس ہیں آڈیو ویڈیو دونوں۔
انڈین شعرا کا ترنم ہمیں بے حد پسند ہے سماں واقعی باندھ دیتے ہیں ۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
Top