اک غزل اصلاح کی غرض سے پیشِ خدمت ہے

نافرع

محفلین
نگاہ میں کہاں قدرِ منزل رہی
کدھر لے چلا شوقِِ ِ آولرگی

ملا چین چاکِ گریباں سے کب
جنوں کی ہو کوئی تو حد آخری

یہ کس کا تصوّر نگاھ میں رہا
اترآئی ہر حرف میں روشنی

لیا زور سے تھام یاروں نے دل
وہ زلفِ رسا شانے پر کیا گری

شبِ وصل تھم سا گیا تھا جہاں
فقط سانس لیتی تھی بس خامشی
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے عرفان۔ کچھ معمولی سی بہتری کی جا سکتی ہے۔
نگاہ میں کہاں قدرِ منزل رہی
//یہاں ’نگہ‘ کا محل ہے۔

اسی طرح یہاں بھی
’یہ کس کا تصوّر نگاہ میں رہا‘
یہ کس کا تصوّر نگہ میں رہا
ہونا چاہئے۔

وہ زلفِ رسا شانے پر کیا گری
// یہاں شانے‘ کی ’ے‘ کا اسقاط ہو رہا ہے، جو جائز تو ہے لیکن اچھا نہیں لگ رہا۔
اس کی ترتیب بدل دو
جو شانے پہ زلف رسا کیا گری
یا کوئی اور صورت۔
 

مزمل حسین

محفلین
بہت خوبصورت غزل ہے جناب.
اصلاح سخن میں اساتذہ کرام کے کمینٹس سے تھریڈ اونر کے علاوہ باقی قارئین بھی خوب فیض یاب ہوتے ہیں اور اساتذہ کرام کی اصلاح بھی بہت مشفقانہ انداز میں ملتی ہے.
عرفان صاحب آپ کا کیا خیال ہے اگر مطلع میں "کدھر" کو "پرے" سے بدل دیا جائے اور وہ زلف رسا شانے پر کیا گری میں شانے کی بجائے دوش کیسا رہے گا؟
جسارت کی معافی
 

الف عین

لائبریرین
مزمل کا مشورہ بھی درست ہے۔ میں خواہ مخواہ شاعر کے الفاظ بدلنے کی کوشش نہیں کرتا۔ ہاں، اگر فوراً کسی بہتر تبدیلی کا خیال آ جائے تو دوسری بات ہے۔
 
Top