اک غزل جو عروضی نہ ہو سکی!

تِرا ہے وہ تیری جاں سے مزید
جو قریب تیرے مِن حَبلِ الوَرِید
مکمل ہوتے نہیں ہیں شوق یہاں
نہ کر غم کہ ہے وہ یبدی و یعید
محبوب سے بُعد، اکثر فراق میں
رہنا لگے نار ، شراب ماءً صدید
قدر نہیں یہاں کسی کی تہائی بھی
پائے نام کوئی اوقات سے مزید
خلد ہے اگر وصلِ یار کی جگہ
یُوں ہر جگہ دوزخ پھر خلد سے بعید
حسنانؔ تیری ہو ، یا کسی کی چاہ
کرے وہ المجید فعّال لِما یُرِید
 
آخری تدوین:
Top