اک لفظ بھی زبان سے نکلے مجال ہے۔ غزل برائے اصلاح

طاری ہے سکتہ ہم پہ کہ وقتِ زوال ہے
اک لفظ بھی زبان سے نکلے مجال ہے !
سینہ بھی اب نہیں ہے دلِ زار کا مقام
اب قیس کا بھی دشت میں ملنا محال ہے
بولوں تو ذکر آپ کا ہے بات بات میں
سوچوں تو صرف آپ کا ہردم خیال ہے
خاموش ہے خیال مرا بحر کی طرح
اور حرفِ آرزو ہے کہ محوِ دھمال ہے
کس نے یہاں بکھیر دیں سورج کی کرچیاں
اب چاند کا زمین پہ چلنا محال ہے
گرچہ میں آبسا ہوں حقیقت کے شہر میں
لیکن مرا گماں سے تعلق بحال ہے
اس شخص کی مثال دوں میں کس حوالے سے
وہ شخص ہر حوالے سے ہی بے مثال ہے
میں ان دنوں خودی سے ہی مصروف ِجنگ ہوں
میرا تو اپنے آپ سے بچنا محال ہے
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے ماشاء اللہ۔
محوِ دھمال غلط ترکیب ہے کہ دھمال دیسی لفظ ہے۔ بلکہ پنجابی شاید۔

اس شخص کی مثال دوں میں کس حوالے سے
وہ شخص ہر حوالے سے ہی بے مثال ہے
میں حوالے کی تکرار اچھی نہیں لگتی
 
اچھی غزل ہے ماشاء اللہ۔
محوِ دھمال غلط ترکیب ہے کہ دھمال دیسی لفظ ہے۔ بلکہ پنجابی شاید۔

اس شخص کی مثال دوں میں کس حوالے سے
وہ شخص ہر حوالے سے ہی بے مثال ہے
میں حوالے کی تکرار اچھی نہیں لگتی
شکریہ سر
 
Top