فانی اک معمّہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا - فانی بدایونی

محمد وارث

لائبریرین
خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا
ایک گوشہ ہے یہ دنیا اسی ویرانے کا

اک معمّہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا

حُسن ہے ذات مری، عشق صفَت ہے میری
ہوں تو میں شمع مگر بھیس ہے پروانے کا

کعبہ کو دل کی زیارت کے لیے جاتا ہوں
آستانہ ہے حرم میرے صنم خانے کا

مختصر قصّہٴ غم یہ ہے کہ دل رکھتا ہوں
رازِ کونین خلاصہ ہے اس افسانے کا

زندگی بھی تو پشیماں ہے یہاں لا کے مجھے
ڈھونڈتی ہے کوئی حیلہ مرے مر جانے کا

تم نے دیکھا ہے کبھی گھر کو بدلتے ہوئے رنگ
آؤ دیکھو نہ تماشا مرے غم خانے کا

اب اسے دار پہ لے جا کے سُلا دے ساقی
یوں بہکنا نہیں اچھّا ترے مستانے کا

دل سے پہنچی تو ہیں آنکھوں میں لہو کی بوندیں
سلسلہ شیشے سے ملنا تو ہے پیمانے کا

ہڈّیاں ہیں کئی لپٹی ہوئی زنجیروں میں
لیے جاتے ہیں جنازہ ترے دیوانے کا

وحدتِ حُسن کے جلووں کی یہ کثرت اے عشق
دل کے ہر ذرّے میں عالم ہے پری خانے کا

چشمِ ساقی اثرِ مے سے نہیں ہے گل رنگ
دل مرے خون سے لبریز ہے پیمانے کا

لوح دل کو، غمِ الفت کو قلم کہتے ہیں
کُن ہے اندازِ رقم حُسن کے افسانے کا

ہر نفَس عمرِ گزشتہ کی ہے میّت فانی
زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا

فانی بدایونی
 

محمداحمد

لائبریرین
واہ واہ کیا خوبصورت غزل ہے۔

دل چاہتا ہے ایک ایک شعر پر الگ سے داد دی جائے۔ کمال ہے۔

اک معمّہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا

اب اسے دار پہ لے جا کے سُلا دے ساقی
یوں بہکنا نہیں اچھّا ترے مستانے کا

ہر نفَس عمرِ گزشتہ کی ہے میّت فانی
زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا

یہ مشہورِ عام اشعار تو کسی تعریف کے محتاج ہی نہیں ہیں۔

زندگی بھی تو پشیماں ہے یہاں لا کے مجھے​
ڈھونڈتی ہے کوئی حیلہ مرے مر جانے کا​

دل سے پہنچی تو ہیں آنکھوں میں لہو کی بوندیں​
سلسلہ شیشے سے ملنا تو ہے پیمانے کا​

وحدتِ حُسن کے جلووں کی یہ کثرت اے عشق​
دل کے ہر ذرّے میں عالم ہے پری خانے کا​

چشمِ ساقی اثرِ مے سے نہیں ہے گل رنگ​
دل مرے خون سے لبریز ہے پیمانے کا​

بہت ہی اعلیٰ!

اس حسنِ انتخاب پر سو سو مبارکباد قبول کیجے محترم ۔۔۔!
 

الشفاء

لائبریرین
خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا​
ایک گوشہ ہے یہ دنیا اسی ویرانے کا​

حُسن ہے ذات مری، عشق صفَت ہے میری​
ہوں تو میں شمع مگر بھیس ہے پروانے کا​

واہ۔ واہ۔ بہت اعلیٰ انتخاب وارث بھائی۔۔۔​
 

مخلص انسان

محفلین
ایک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کاہے کو ہے ، خواب ہے دیوانے کا
مختصر قصہ غم یہ ہے کہ دل رکھتا ہوں
راز کونین ، خلاصہ ہے اس افسانے کا
زندگی بھی تو پشیماں ہے یہاں لا کے مجھے
ڈھونڈتی ہے کوئی حیلہ میرے مر جانے کا
تم نے دیکھا ہے کبھی گھر کو بدلتے ہوئے رنگ
آؤ ، دیکھو نہ تماشا مرے غم خانے کا
اب اسے دار پہ لے جا کے سلا دے ساقی
یوں بہکنا نہیں اچھا ترے مستانے کا
دل سے پہنچی تو ہیں آنکھوں میں لہو کی بوندیں
سلسلہ شیشے سے ملتا تو ہے پیمانے کا
ہڈیاں ہیں کئی ، لپٹی ہوئی زنجیروں میں
لئے جاتے ہیں جنازہ تیرے دیوانے کا
ہر نفس عمر گذشتہ کی ہے میت فانی
زندگی نام ہے مرمر کے جئے جانے کا
 

سیما علی

لائبریرین
خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا
ایک گوشہ ہے یہ دنیا اسی ویرانے کا

اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا

حسن ہے ذات مری عشق صفت ہے میری
ہوں تو میں شمع مگر بھیس ہے پروانے کا

کعبہ کو دل کی زیارت کے لیے جاتا ہوں
آستانہ ہے حرم میرے صنم خانے کا

مختصر قصۂ غم یہ ہے کہ دل رکھتا ہوں
راز کونین خلاصہ ہے اس افسانے کا

زندگی بھی تو پشیماں ہے یہاں لا کے مجھے
ڈھونڈتی ہے کوئی حیلہ مرے مر جانے کا

تم نے دیکھا ہے کبھی گھر کو بدلتے ہوئے رنگ
آؤ دیکھو نہ تماشا مرے غم خانے کا

اب اسے دار پہ لے جا کے سلا دے ساقی
یوں بہکنا نہیں اچھا ترے مستانے کا

دل سے پہنچی تو ہیں آنکھوں میں لہو کی بوندیں
سلسلہ شیشے سے ملتا تو ہے پیمانے کا

ہڈیاں ہیں کئی لپٹی ہوئی زنجیروں میں
لیے جاتے ہیں جنازہ ترے دیوانے کا

وحدت حسن کے جلووں کی یہ کثرت اے عشق
دل کے ہر ذرے میں عالم ہے پری خانے کا

چشم ساقی اثر مئے سے نہیں ہے گل رنگ
دل مرے خون سے لبریز ہے پیمانے کا

لوح دل کو غم الفت کو قلم کہتے ہیں
کن ہے انداز رقم حسن کے افسانے کا

ہم نے چھانی ہیں بہت دیر و حرم کی گلیاں
کہیں پایا نہ ٹھکانا ترے دیوانے کا

کس کی آنکھیں دم آخر مجھے یاد آئی ہیں
دل مرقع ہے چھلکتے ہوئے پیمانے کا

کہتے ہیں کیا ہی مزے کا ہے فسانہ فانیؔ
آپ کی جان سے دور آپ کے مر جانے کا

ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانیؔ
زندگی نام ہے مر مر کے جئے جانے کا
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
خوبصورت ، لاجواب اور سدا بہار غزل

بہت شکریہ

پہلے مصرع اور عنوان کو ایسے کر لیجے۔
"خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا"
 
Top