فرخ منظور
لائبریرین
میرحسن کی زمین میں تصرف کے ساتھ
وطنِ خون آلود کے نام
اک نئے شہر کی تصویر بناتے جاویں
رنگ بھرنے کے لئے خون بہاتے جاویں
اک نئے شہر کی تصویر بناتے جاویں
رنگ بھرنے کے لئے خون بہاتے جاویں
اوّلِ وقت ہے، پڑھ لیں کسی مسجد میں نماز
واپسی میں کسی بت خانے کو ڈھاتے جاویں
شہر کو شہرِخموشاں سے ملانا ہے ہمیں
جو بھی دیوار نظر آئے گراتے جاویں
روشنی کے لئے کافی ہے بہت آتشِ غیظ
سر اٹھائے جو دیا اس کو بجھاتے جاویں
جو بھی آوے ہے وہی تیغ چلاوے ہے میاں
ہم کہاں تک یہ سر و سینہ بچاتے جاویں
داد لینی ہے ہمیں حاکمِ سفاک سے خوب
سر جو کاٹا ہے تو خیمے بھی جلاتے جاویں
اوڑھ لیں ہم بھی بدن پر کوئی ملبوسِ سفید
ہم بھی کافور کی خوشبو میں نہاتے جاویں
شہر میں جشنِ جنازہ سے بڑی رونق ہے
ہم بھی کاندھے پہ کوئی لاش اٹھاتے جاویں
میتِ ماہ ابھی زیرِ لحد رکھی ہے
قبرِ خورشید بھی پہلو میں بناتے جاویں
عنبر و عُود کی دھونی میں غزل کیا کہتے
آ تجھے سورۂ یٰسین سناتے جاویں
(عارف امام)
واپسی میں کسی بت خانے کو ڈھاتے جاویں
شہر کو شہرِخموشاں سے ملانا ہے ہمیں
جو بھی دیوار نظر آئے گراتے جاویں
روشنی کے لئے کافی ہے بہت آتشِ غیظ
سر اٹھائے جو دیا اس کو بجھاتے جاویں
جو بھی آوے ہے وہی تیغ چلاوے ہے میاں
ہم کہاں تک یہ سر و سینہ بچاتے جاویں
داد لینی ہے ہمیں حاکمِ سفاک سے خوب
سر جو کاٹا ہے تو خیمے بھی جلاتے جاویں
اوڑھ لیں ہم بھی بدن پر کوئی ملبوسِ سفید
ہم بھی کافور کی خوشبو میں نہاتے جاویں
شہر میں جشنِ جنازہ سے بڑی رونق ہے
ہم بھی کاندھے پہ کوئی لاش اٹھاتے جاویں
میتِ ماہ ابھی زیرِ لحد رکھی ہے
قبرِ خورشید بھی پہلو میں بناتے جاویں
عنبر و عُود کی دھونی میں غزل کیا کہتے
آ تجھے سورۂ یٰسین سناتے جاویں
(عارف امام)