اک نظر کامران کی بارہ دری کی طرف بھی

تاریخ میں کامران بارہ دری کے ساتھ ایک تلخ واقعہ کی یاد وابستہ ہے۔ اسی بارہ دری میں شہنشاہ جہانگیر کے پاس بغاوت کرنے والے اُن کے بیٹے خسرو اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کرکے لایا گیا تھا۔ زنجیروں میں جکڑے بیٹے اور دیگر باغیوں کو جب جہانگیر کے سامنے پیش کیا گیا تو اُس نے باغیوں کو سزائے موت کا حکم سُنایا اور اپنے بیٹے خسرو کی آنکھیں نکالنے کا حکم صادر کیا اور ساتھ ہی یہ تاریخی جملہ کہا کہ بادشاہ کا کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا۔ اس کے بعد کامران بارہ دری سے قلعہ لاھور تک کے راستے میں تین سو کے قریب خسرو کے ساتھیوں کو پھانسی پر لٹکایا گیا اور اُن کے درمیان سے گھسیٹ کر خسرو کو قلعہ لاھور لے جایا گیا اور نابینا کردیا گیا۔ بعد ازاں قلعہ لاھور ہی میں خسرو کی موت واقع ہوئی۔
واضح رہے کہ جہانگیر نے خود بھی اپنے باپ جلال الدین اکبر کے خلاف بغاوت کی تھی اور اس دوران میں جہانگیر کے بڑے بیٹے خسرو کو اکبر کی کافی قربت حاصل ہوگئی تھی اور یہ باور کیا جانے لگا تھا کہ اکبر کے بعد خسرو ہی بادشاہ بنے گا مگر اکبر کی زندگی کے آخری حصے میں جہانگیر اور اکبر کی صلح ہوگئی اور یوں جہانگیر ہی مغل سلطنت کا ولی عہد رہا اور بادشاہ بننے کے لئے اُس کو اپنے ہی بیٹے کی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا۔ کامران بارہ دری سےجڑی یہ کہانی تو اب ماضی کا حصہ ہے
کل کامران کی بارہ دری جانے کا پروگرام بنا سوچا موسم خوشگوار ہے تو تھوڑی سیر ہو جائے گی اور بارہ دری کو پہلی دفعہ پاس سے دیکھ بھی لیا جائے گا لیکن وہاں کی حالت دیکھ کر واقعی دل افسردہ ہو گیا عمارت کی دیواروں کی حالت اس کاغذ سے مختلف نہیں ہے جو صرف ردی کی ٹوکری میں نظر آتا ہے
IMG_20160530_182856_zpsqonmty9u.jpg

IMG_20160530_180716_zpshh4f7r9s.jpg

IMG_20160530_180351_zps5qnutqnd.jpg

IMG_20160530_180433_zpslxy1uiwy.jpg

IMG_20160530_180437_zpskpmbx26i.jpg
 

لاریب مرزا

محفلین
لوگ مانیں یا نہ مانیں. ہماری قوم کو ادب سے بہت لگاؤ ہے.
ادب سے نہیں سلیٹ اور تختی سے بہت لگاؤ ہے۔ ہر چیز یہی نظر آتی ہے انہیں
ہماری ناقص معلومات کے مطابق یہ لگاؤ ادب یا سلیٹ تختی سے نہیں بلکہ سونیا سے ہے۔
 

لاریب مرزا

محفلین
پاکستان میں تمام تاریخی مقامات کا کم وبیش یہی حال ہے، شالیمار باغ ہمارے نانی اماں کے گھر سے walking distance پہ ہے۔ ہم لوگ اکثر وہاں چلے جاتے ہیں۔ اس کا داخلی حصہ پھر قدرے بہتر ہے لیکن عقبی حصہ شکست و ریخت کا شکار ہے اور اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ یہی حال شاہی قلعے اور شیش محل کا ہے۔
 
Top