فرحت کیانی
لائبریرین
اک پریشاں سی روایت ہم ہیں
کچھ سہی پھر بھی غنیمت ہم ہیں
جب یہ سوچا ہے تو اور اُلجھے ہیں
اتنے کیوں سادہ طبیعت ہم ہیں
ہر قدم کہتے ہیں کچھ تازہ نقوش
اے مسافر تری ہمت ہم ہیں
کوئی قاتل ہو تو دیں اُس کا پتہ
کُشتہء تیغ شرافت ہم ہیں
چشمِ تحقیق سے دیکھا تو کُھلا
وقت کی ساری اذیت ہم ہیں
ناخدا دیکھتے ہیں یوں ہم کو
جیسے طوفاں کی علامت ہم ہیں
اس سے بڑھ کر بھی قیامت ہوگی
ذدرے کہتے ہیں قیامت ہم ہیں
جُرمِ خاطر شکنی کون کرے
ہدفِ سنگِ ملامت ہم ہیں
آج جب دار ہے حق کا اعزاز
معجزہ ہے کہ سلامت ہیں
۔۔۔محشر بدایونی
کچھ سہی پھر بھی غنیمت ہم ہیں
جب یہ سوچا ہے تو اور اُلجھے ہیں
اتنے کیوں سادہ طبیعت ہم ہیں
ہر قدم کہتے ہیں کچھ تازہ نقوش
اے مسافر تری ہمت ہم ہیں
کوئی قاتل ہو تو دیں اُس کا پتہ
کُشتہء تیغ شرافت ہم ہیں
چشمِ تحقیق سے دیکھا تو کُھلا
وقت کی ساری اذیت ہم ہیں
ناخدا دیکھتے ہیں یوں ہم کو
جیسے طوفاں کی علامت ہم ہیں
اس سے بڑھ کر بھی قیامت ہوگی
ذدرے کہتے ہیں قیامت ہم ہیں
جُرمِ خاطر شکنی کون کرے
ہدفِ سنگِ ملامت ہم ہیں
آج جب دار ہے حق کا اعزاز
معجزہ ہے کہ سلامت ہیں
۔۔۔محشر بدایونی