نمرہ
محفلین
اک گل تازہ میان قریہ مہتاب تھے
کیا کہیں ہم آرزو کس کس کی، کس کا خواب تھے
سادگی کے پیرہن میں باندھ رکھتے تھے انھیں
کچھ ارادے پھوٹ پڑنے کو بہت بیتاب تھے
کچھ زمینی بندھنوں میں ماند ہو کر رہ گئے
ہم کہ اپنی اصل میں آتش تھے اور سیماب تھے
خود بخود اک دشت اندر اگ رہا تھا دن بہ دن
میرے گھر کی چار جانب کچھ نئے سیلاب تھے
ہم تو سمجھے تھے شمار اپنا کہیں ہے ہی نہیں
زنگ لگ جانے پہ بھی دنیا کی آب و تاب تھے
ان کی سیاحی کو مجنوں ہی کوئی درکار تھا
کچھ علاقے تھے کہ جو مدت سے زیر آب تھے
قریہ جاں میں سنبھل کر پاؤں رکھتا تھا کوئی
اتنی بے باکی پہ بھی گاہے گہے برفاب تھے
کیا کہیں ہم آرزو کس کس کی، کس کا خواب تھے
سادگی کے پیرہن میں باندھ رکھتے تھے انھیں
کچھ ارادے پھوٹ پڑنے کو بہت بیتاب تھے
کچھ زمینی بندھنوں میں ماند ہو کر رہ گئے
ہم کہ اپنی اصل میں آتش تھے اور سیماب تھے
خود بخود اک دشت اندر اگ رہا تھا دن بہ دن
میرے گھر کی چار جانب کچھ نئے سیلاب تھے
ہم تو سمجھے تھے شمار اپنا کہیں ہے ہی نہیں
زنگ لگ جانے پہ بھی دنیا کی آب و تاب تھے
ان کی سیاحی کو مجنوں ہی کوئی درکار تھا
کچھ علاقے تھے کہ جو مدت سے زیر آب تھے
قریہ جاں میں سنبھل کر پاؤں رکھتا تھا کوئی
اتنی بے باکی پہ بھی گاہے گہے برفاب تھے