محمد ریحان قریشی
محفلین
آنکھ میں چشمۂ حیات نہیں
پھر بھی تصویر بے ثبات نہیں
کیوں کوئی خواب میں خیال میں آئے
کیا مرے بس میں میری ذات نہیں؟
کوئی مجنوں یہ کہہ رہا تھا آج
عشق صحرا ہے کائنات نہیں
کائناتیں تمام تیری ہیں
میرے حصے میں میری ذات نہیں
موت کی آرزو میں جیتا ہوں
مت سمجھ مقصدِ حیات نہیں
اک ہی مضمونِ یاوہ گوئی ہے
میری باتوں میں سو نکات نہیں
حد سے بڑھتا ہے شوقِ استغنا
وہ جو کٹ جائے یہ وہ رات نہیں
ہاں وہ ریحان تھا کوئی، نہ رہا
جانِ من اور کوئی بات نہیں
پھر بھی تصویر بے ثبات نہیں
کیوں کوئی خواب میں خیال میں آئے
کیا مرے بس میں میری ذات نہیں؟
کوئی مجنوں یہ کہہ رہا تھا آج
عشق صحرا ہے کائنات نہیں
کائناتیں تمام تیری ہیں
میرے حصے میں میری ذات نہیں
موت کی آرزو میں جیتا ہوں
مت سمجھ مقصدِ حیات نہیں
اک ہی مضمونِ یاوہ گوئی ہے
میری باتوں میں سو نکات نہیں
حد سے بڑھتا ہے شوقِ استغنا
وہ جو کٹ جائے یہ وہ رات نہیں
ہاں وہ ریحان تھا کوئی، نہ رہا
جانِ من اور کوئی بات نہیں