اک ہی مضمونِ یاوہ گوئی ہے

آنکھ میں چشمۂ حیات نہیں
پھر بھی تصویر بے ثبات نہیں

کیوں کوئی خواب میں خیال میں آئے
کیا مرے بس میں میری ذات نہیں؟

کوئی مجنوں یہ کہہ رہا تھا آج
عشق صحرا ہے کائنات نہیں

کائناتیں تمام تیری ہیں
میرے حصے میں میری ذات نہیں

موت کی آرزو میں جیتا ہوں
مت سمجھ مقصدِ حیات نہیں

اک ہی مضمونِ یاوہ گوئی ہے
میری باتوں میں سو نکات نہیں

حد سے بڑھتا ہے شوقِ استغنا
وہ جو کٹ جائے یہ وہ رات نہیں

ہاں وہ ریحان تھا کوئی، نہ رہا
جانِ من اور کوئی بات نہیں
 
گو کہ کاوش اس قابل تو نہیں کہ اس پر نقد و نظر میں وقت برباد کیا جائے، مگر احباب اپنی خوئے کرم فرمائی کو جوش میں لا کر اگر ایسا کریں تو باعثِ صد افتخار ہوگا۔
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ واہ ! بہت خوب ریحان !! اچھے اشعار ہیں !

موت کی آرزو میں جیتا ہوں
مت سمجھ مقصدِ حیات نہیں

کیا اچھا کہا ہے !! بہت خوب ریحان! سلامت رہو! شاد آباد رہو!

بس ایک معمولی سی رائے یہ ہے کہ مقطع میں ’’ہاں وہ ریحان تھا کوئی‘‘ کے بجائے ’’وہ جو ریحان تھا کوئی‘‘ کر کے دیکھ لیں ۔

بہت بہت داد و تحسین!!!
 

La Alma

لائبریرین
عمدہ کاوش ہے۔ بہت اعلٰی۔
نکھ میں چشمۂ حیات نہیں
پھر بھی تصویر بے ثبات نہی
خوب معنی آفرینی ہے۔
مجھے امید ہے یہ چشمہ نظر کا چشمہ ہر گز نہیں ہو گا :)
کیوں کوئی خواب میں خیال میں آئے
"خواب میں خیال میں" کی بجائے اگر "خواب و خیال " یا کوئی اور ترکیب لے کر آئیں تو زیادہ بہتر نہ ہو ؟
 
عمدہ کاوش ہے۔ بہت اعلٰی۔
حوصلہ افزائی پر بے حد ممنون ہوں۔
مجھے امید ہے یہ چشمہ نظر کا چشمہ ہر گز نہیں ہو گا
جی اس کے ہم سزاوار ضرور ٹھہرے ہیں۔:)
"خواب میں خیال میں" کی بجائے اگر "خواب و خیال " یا کوئی اور ترکیب لے کر آئیں تو زیادہ بہتر نہ ہو ؟
آپ کی بات غور طلب ہے۔
کیوں کوئی کشورِ خیال میں آئے
کیسا رہے گا؟
 
Top