اگر آپ ہم کو ستانے لگیں گے (فعولن فعولن فعولن فعولن)

نوید ناظم

محفلین
اگر آپ ہم کو ستانے لگیں گے
تو ہم اور بھی مسکرانے لگیں گے

مِرے دل کے اندر جو لمحے میں اترا
اُسے بھولنے میں زمانے لگیں گے

اگر دیکھ لے اک جھلک اُن کی تُو بھی
ترے ہوش بھی پھر ٹھکانے لگیں گے

جب آرام ہم کو ذرا سا بھی آیا
تو وہ دردِ دل کو بڑھانے لگیں گے

قیامت تو برپا نہیں ہو گی کوئی
اگر آپ وعدہ نبھانے لگیں گے

رقیب آ کے چل جائے گا چال کوئی
اُنھیں جب کبھی ہم منانے لگیں گے

ذرا ان کو ساقی کا چہرہ دکھاؤ
تو پھر میکدے شیخ آنے لگیں گے

وہ پہلے ترے دل کو چوری کریں گے
پھر آنکھوں کو اپنی چُرانے لگیں گے

سرِ حشر پھر اک تماشا لگے گا
ستم اُن کے جب ہم بتانے لگیں گے

بلا لیں گے پھر لوگ صیاد کو بھی
پرندوں کو جب ہم اُڑانے لگیں گے

لگا دیں گے ہم آگ آنکھوں کو اپنی
اگر آپ چہرہ چھپانے لگیں گے

عبث برق کو پھر تکلف سا ہو گا
جو ہم آشیانہ بنانے لگیں گے

ںوید اُن کی آنکھوں کا آنسو تُو بننا
تجھے جب نظر سے گرانے لگیں گے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
میرے خیال میں مصرعۂ اول میں بھی بات زمانۂ مستقبل میں ہونی چاہیئے نہ کہ ماضی میں۔
نہیں۔ یہ بات کا لہجہ ہے، گرامر کا صیغہ نہیں۔
اگر آپ ہم کو ستانے لگیں گے
تو ہم اور بھی مسکرانے لگیں گے
÷÷÷درست
مِرے دل کے اندر جو لمحے میں اترا
اُسے بھولنے میں زمانے لگیں گے
÷÷÷جو پل بھر میں اترا
کہیں تو بات زیادہ اثر دار ہو جاتی ہے نا!!

اگر دیکھ لے اک جھلک اُن کی تُو بھی
ترے ہوش بھی پھر ٹھکانے لگیں گے

جب آرام ہم کو ذرا سا بھی آیا
تو وہ دردِ دل کو بڑھانے لگیں گے
÷÷اس کا پہلا مصرع یوں ہو تو
ذرا سا اگر ہم کو آرام آیا
یا
ذرا سا جو آرام بھی ہم کو آیا
تو میرے خیال میں بہتر ہو جائے گا شعر۔


قیامت تو برپا نہیں ہو گی کوئی
اگر آپ وعدہ نبھانے لگیں گے

رقیب آ کے چل جائے گا چال کوئی
اُنھیں جب کبھی ہم منانے لگیں گے

ذرا ان کو ساقی کا چہرہ دکھاؤ
تو پھر میکدے شیخ آنے لگیں گے
÷÷بالا سب درست

وہ پہلے ترے دل کو چوری کریں گے
پھر آنکھوں کو اپنی چُرانے لگیں گے
÷÷÷دونوں مصرعوں میں ’گے‘ کی تکرار سے بچا جا سکتا ہے۔ الفاظ الٹ کر۔
سرِ حشر پھر اک تماشا لگے گا
ستم اُن کے جب ہم بتانے لگیں گے
÷÷÷ یہ خاص نہیں۔ اسے نکال ہی دو۔

بلا لیں گے پھر لوگ صیاد کو بھی
پرندوں کو جب ہم اُڑانے لگیں گے
÷÷÷ٹھیک
لگا دیں گے ہم آگ آنکھوں کو اپنی
اگر آپ چہرہ چھپانے لگیں گے
÷÷÷آگ ہی کیوں لگائی جائے؟ آنکھیں پھوڑی جاتی ہیں۔
عبث برق کو پھر تکلف سا ہو گا
جو ہم آشیانہ بنانے لگیں گے
÷÷÷درست

ںوید اُن کی آنکھوں کا آنسو تُو بننا
تجھے جب نظر سے گرانے لگیں گے
÷÷÷مقطع پسند نہیں آیا۔ الفاظ بدل کر پھر کہو
 

نوید ناظم

محفلین
نہیں۔ یہ بات کا لہجہ ہے، گرامر کا صیغہ نہیں۔
اگر آپ ہم کو ستانے لگیں گے
تو ہم اور بھی مسکرانے لگیں گے
÷÷÷درست
مِرے دل کے اندر جو لمحے میں اترا
اُسے بھولنے میں زمانے لگیں گے
÷÷÷جو پل بھر میں اترا
کہیں تو بات زیادہ اثر دار ہو جاتی ہے نا!!

اگر دیکھ لے اک جھلک اُن کی تُو بھی
ترے ہوش بھی پھر ٹھکانے لگیں گے

جب آرام ہم کو ذرا سا بھی آیا
تو وہ دردِ دل کو بڑھانے لگیں گے
÷÷اس کا پہلا مصرع یوں ہو تو
ذرا سا اگر ہم کو آرام آیا
یا
ذرا سا جو آرام بھی ہم کو آیا
تو میرے خیال میں بہتر ہو جائے گا شعر۔


قیامت تو برپا نہیں ہو گی کوئی
اگر آپ وعدہ نبھانے لگیں گے

رقیب آ کے چل جائے گا چال کوئی
اُنھیں جب کبھی ہم منانے لگیں گے

ذرا ان کو ساقی کا چہرہ دکھاؤ
تو پھر میکدے شیخ آنے لگیں گے
÷÷بالا سب درست

وہ پہلے ترے دل کو چوری کریں گے
پھر آنکھوں کو اپنی چُرانے لگیں گے
÷÷÷دونوں مصرعوں میں ’گے‘ کی تکرار سے بچا جا سکتا ہے۔ الفاظ الٹ کر۔
سرِ حشر پھر اک تماشا لگے گا
ستم اُن کے جب ہم بتانے لگیں گے
÷÷÷ یہ خاص نہیں۔ اسے نکال ہی دو۔

بلا لیں گے پھر لوگ صیاد کو بھی
پرندوں کو جب ہم اُڑانے لگیں گے
÷÷÷ٹھیک
لگا دیں گے ہم آگ آنکھوں کو اپنی
اگر آپ چہرہ چھپانے لگیں گے
÷÷÷آگ ہی کیوں لگائی جائے؟ آنکھیں پھوڑی جاتی ہیں۔
عبث برق کو پھر تکلف سا ہو گا
جو ہم آشیانہ بنانے لگیں گے
÷÷÷درست

ںوید اُن کی آنکھوں کا آنسو تُو بننا
تجھے جب نظر سے گرانے لگیں گے
÷÷÷مقطع پسند نہیں آیا۔ الفاظ بدل کر پھر کہو

بہت شکریہ سر۔۔۔۔
مِرے دل کے اندر جو لمحے میں اترا
اُسے بھولنے میں زمانے لگیں گے
÷÷÷جو پل بھر میں اترا
کہیں تو بات زیادہ اثر دار ہو جاتی ہے نا!!
بالکل ہو جاتی ہے سر، کر دیا۔

جب آرام ہم کو ذرا سا بھی آیا
تو وہ دردِ دل کو بڑھانے لگیں گے
÷÷اس کا پہلا مصرع یوں ہو تو
ذرا سا اگر ہم کو آرام آیا
یا
ذرا سا جو آرام بھی ہم کو آیا
تو میرے خیال میں بہتر ہو جائے گا شعر۔

جی بالکل۔۔۔
ذرا سا اگر ہم کو آرام آیا
یہ مصرع لے لیا سر، عطا کا شکریہ۔

وہ پہلے ترے دل کو چوری کریں گے
پھر آنکھوں کو اپنی چُرانے لگیں گے
÷÷÷دونوں مصرعوں میں ’گے‘ کی تکرار سے بچا جا سکتا ہے۔ الفاظ الٹ کر۔

مصرع بدل دیا سر، اب شعر یوں ہے۔۔۔

چُرائیں گے پہلے تو وہ تیرے دل کو
پھر آنکھوں کو اپنی چُرانے لگیں گے

سرِ حشر پھر اک تماشا لگے گا
ستم اُن کے جب ہم بتانے لگیں گے
÷÷÷ یہ خاص نہیں۔ اسے نکال ہی دو۔
جی بہتر، نکال دیا۔

ںوید اُن کی آنکھوں کا آنسو تُو بننا
تجھے جب نظر سے گرانے لگیں گے
÷÷÷مقطع پسند نہیں آیا۔ الفاظ بدل کر پھر کہو
سر مقطع بھی نکال دیا۔
 
Top