ساغر صدیقی اگر بزم ہستی میں عورت نہ ہوتی

اگر بزم ہستی میں عورت نہ ہوتی
خیالوں کی رنگین جنت نہ ہوتی


ستاروں کے دلکش فسانے نہ ہوتے
بہاروں کی نازک حقیقت نہ ہوتی

جبینوں پہ نور مسرت نہ کھلتا
نگاہوں میں شان مروت نہ ہوتی

گھٹاؤں کی آمد کو ساون ترستے
فضاؤں میں بہکی بغاوت نہ ہوتی

فقیروں کو عرفان ہستی نہ ملتا
عطا زاہدوں کو عبادت نہ ہوتی

مسافر صدا منزلوں پر بھٹکتے
سفینوں کو ساحل کی قربت نہ ہوتی

ہر اک پھول کا رنگ پھیکا سا رہتا
نسیم بہاراں میں نکہت نہ ہوتی

خدائی کا انصاف خاموش رہتا
سنا ہے کسی کی شفاعت نہ ہوتی

ساغرصدیقی
 
Top